📚 اللہ تعالیٰ کی قدرت، حکمت، مخلوق کی محتاجی اور ہمارا تعلیمی نظام 📚
- 📌 حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اللہ پر بھروسہ اور توکل حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت اور مخلوق کے محتاج ہونے کو خوب سوچے اور یاد کیا کرے۔
- 📌 کسی چیز کو یاد کرنے کے لیے ایک شرط (prerequisite) ہوتی ہے، یعنی وہ موجود ہوگا تب ہی آپ اس چیز کو یاد کرسکتے ہیں۔ وہ کیا ہے؟
- 📌 وہ شرط ہے اس چیز کے بارے میں علم ہونا، مثلاً جب تک آپکو اپنی محتاجی کا علم ہی نہیں ہوگا کہ میں حقیقتا اللہ کا کتنا محتاج ہوں تو آپ اپنی محتاجی کو کیسے یاد کریں گے۔ بلکہ الٹا اپنے آپ کو قادر سمجھتے رہیں گے۔
- 📌 تو یہاں علم سے مراد اللہ کی قدرت، اللہ کی حکمت اور مخلوق کی محتاجی کا علم ہے تاکہ اپنے اندر اللہ پر توکل پیدا کرنے کے لئے ان باتوں کو یاد کیا جاسکے۔ یہ علم نبی کریم ﷺ کے لائے ہوئے ایمانی نظام تعلیم سے حاصل ہوتا ہے۔
- 📌 جبکہ (مروجہ) غیر مسلموں کے تعلیمی نظام سے صرف انسان کی قدرت اور انسان کی عظمت نظر آتی ہے، خدا کی قدرت اور عظمت نہیں۔ کیونکہ اس میں انسانیت کے، بالخصوص سائنسدانوں کے کارناموں کو اجاگر کیا جاتا ہے کہ انہوں نے کیسے قدرت (nature) پر قدرت حاصل کی ہے۔
- 📌 ایمانی نظام تعلیم (faith based education system) کی بنیاد (foundation) کیا ہے؟
- 📌 اسکی بنیاد ہے القرآن (اللہ کا کلام) جتنا ہم قرآن عظیم الشان کو غور و تدبر کے ساتھ سیکھتے سمجھتے جائیں گے، اس نیت کے ساتھ کہ ہم کو اللہ کی قدرت، اللہ کی حکمت اور مخلوق کی محتاجی کے بارے میں علم حاصل کرنا ہے تاکہ ہمارے اندر اللہ پر بھروسہ، توکل پیدا ہوسکے، تو اتنا ہم کو اسکا علم حاصل ہوتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ خود اسکا انتظام فرمائیں گے۔
- 📌 قرآن مجید کو بنیاد بنائیں اور پھر احادیث نبوی ﷺ اسکے اوپر کا درجہ (level) محیا کرتی ہیں، اور پھر اگلا درجہ ہمارے علماء اور مشائخ کی تشریحات اور تعبیرات ہیں۔ اور یہ سب مل کے تفسیر قرآن مجید کا علم بنتا ہے جو کسی صاحب دل کے درس قرآن کے ذریعے سے حاصل کیا جاتا ہے۔
- 📌 سائنس بھی ایمانی ایجوکیشن کا حصّہ ہوتی ہے لیکن یہ اسکا آخری درجہ ہے۔
Last & least important level, in comparison to the base levels. - 📌 سائنس بھی ویسی نہیں، جو ہمیں اللہ سے دور کردے بلکہ سائنس سے ہمارا مطلب ہے مشاہدہ (observation)، اللہ کی مخلوق کو عبرت کی نگاہ سے دیکھنا، اللہ کی تخلیق کو خالق کی عظمت کی نگاہ سے دیکھنا اور اس شعور (awareness) کے ساتھ ہی باقی scientific methods کو استعمال کرنا۔
افلا ینظرون الی الابل کیف خُلقت، و الی السمآء کیف رُفعت، و الی الجبال کیف نُصبت، و الی الارض کیف سُطحت
و جعلنا من الماء کل شئٕ حی، افلا یؤمنون - 📌 شیطان نے ہمیں دھوکے میں ڈالا ہوا ہے کہ ہم اللہ کی عظمت کو سمجھنا چاہتے ہیں اسی لیے ہم سائنس پڑھنا چاہتے ہیں، اسی لیے ہمیں سائنس پڑھنے کا شوق ہے، لیکن دراصل یہ صرف نفس اور شیطان کا دھوکا ہوتا ہے۔
- 📌 یہ کیوں دھوکا ہوتا ہے؟ کیونکہ سائنس پڑھنا تو دوسرے درجوں کے مقابلے میں سب سے کم اہم درجہ (least important) تھا، یہ تو علم کے درجوں میں آخری درجہ تھا۔
It was supposed to be the last step in the learning ladder. - 📌 پہلا قدم تو اللہ تعالیٰ کے کلام کی سمجھ تھی جو نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ اور علماء و مشائخ کی تعلیمات کی روشنی میں حاصل کرنی تھی۔ وہاں سے تو ہم نے اپنی تعلیم شروع کی نہیں۔ تو اس کے بغیر سائنس کے ذریعے کیسے اللہ تعالیٰ کی عظمت کو پہچانیں گے!
- 📌 چنانچہ ہم سائنس سے اللہ کی عظمت نہیں پہچان پاتے، بلکہ صرف انسان کی عظمت کو پہچان پاتے ہیں اور اللہ کو بلکل بھول جاتے ہیں کیونکہ آج کل جو سائنس رائج ہے وہ ان ہی لوگوں کی رائج کی ہوئی ہے اور جو کتابیں ہیں وہ بھی ان ہی لوگوں کی لکھی ہوئی ہیں جو اللہ اور اسکے رسول ﷺ کا انکار کرنے والے ہیں۔
- 📌 جو صحیح ترتیب (right approach) سے اپنا علم شروع کرتا ہے تب scientific methods اسکے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں ورنہ نقصاندہ۔
- 📌 چنانچہ ہمیں تعلیم کے بارے میں اپنے نظریہ کو یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ محض سطحی (symptomatic) علاج کرنے سے یا پیوندکاری (mere patch work) سے فائدہ نہیں ہوگا۔
0 Comments