Apple Podcast Google Podcast
Ask us Questions

SURAH TAHA - سورۃ طہ

27/09/2021
Aayath Name: 83-89
Page: 133

Audio

Important Notes

🍁۲۷ستمبر ٢٠٢١ – سورت طہ – آج کی تفسیر کلاس کے اہم نکات🍁

 

🔸 انسان کبھی بھی اللہ کی یاد سے غافل نہ ہو، چاہے وہ دنیاوی کام کرے یا دینی۔ اللہ کی یاد ہر کام کے ساتھ جاری رہے جیسے زوم ایپ کے ساتھ کمپیوٹر یا فون کا آپریٹنگ سسٹم پیچھے چلتا رہتا ہے۔

 

🔸  اللہ تعالی کی یاد سے غافل نہ ہونے کا مطلب ہے کہ ایک دھیان اللہ کی طرف لگا رہے، یعنی انسان علم اور ارادے سے گناہ کرنا چھوڑ دے۔ دینی کام میں یاد سے غفلت کی مثال دعوت اور تبلیغ میں جھوٹی بات کرے گا اپنے موقف کو مضبوط کرنے کے لئے تو یہ اللہ کی یاد سے غافل ہونا کہلائے گا۔

 

🔸 تائید کرنے سے انسان اس فعل میں شامل ہو جاتا ہے جیسے صالحؑ کی اونٹنی کا قتل ایک نے کیا لیکن عذاب پوری قوم پر آیا، عذاب سے بچنے کے لیے مخالفت کرنا لازم ہے۔

 

🔸 رسول ﷺ نے فرمایا جسکا مفہوم ہے کہ تم میں سے جو برائی کو دیکھے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتا تو زبان سے روکے، اگر زبان سے نہیں روک سکتا تو دل ہی میں برا جانے، اور یہ ایمان کا سب سے ادنی درجہ ہے۔

 

ہمیں گناہ کے بارے میں حجت نہیں بنا سکتے، اگر اللہ کے عذاب سے بچنا ہے۔

 

🔸 نبی کریمﷺ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کی آیات تھی کیونکہ یہ دور فصاحت و بلاغت کا دور تھا، موسیٰؑ کے دور میں جادو عام تھا اس لئے معجزے بھی ویسے (عصا کا اژدھا بن جانا، یدبیضاء  وغیرہ ) ہی عطا کیے۔

 

🔸دعوت و تبلیغ میں نرم کلام کا یہ مطلب نہیں کہ پیغام کو ہی تبدیل کردے تاکہ مخاطب ناراض نہ ہو۔  موسیٰؑ نے خدائی حکم قولا لینا کے باوجود کھل کر بات کی کہ سلامتی ہدایت کی اتباع کرنے والے کے لئے ہے اور عذاب حق کو جھٹلانے والے کے لئے۔

 

🔸 فرعون کو پتہ تھا کہ رب کون ہے کیونکہ اس کے دربار میں یہ باتیں ہوتی تھی کہ ایک نبی بادشاہ آئیں گے اسی لیے اس نے بچوں کے قتل کا حکم دیا۔ اکبرؔ الہ آبادی نے کیا خوب فرمایا

 

یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا

افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

 

انگریزوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے تعلیمی نظام کو تبدیل کیا، اور آج بھی ہم قلبی طور پر انگریز کے غلام ہیں۔

 

🔸 قرآن میں موسیٰؑ کا ذکر اس لیے زیادہ آیا کہ موسیٰؑ کے دور کی مماثلت نبیﷺ کے دور کے ساتھ تھی، خوف کا ذکر کئی دفعہ کیا کہ نبیﷺ پر بھی ایسے طبعی خوف کے حالات آنے تھے۔ آپﷺ کے دل کو مضبوط کرنے کے لیے۔

 

🔸 ہمارے لئے سبق یہ ہے کہ زندگی کے نشیب و فراز میں ہم اللہ کی مان کر چلیں تو اللہ ہمارے دل کو بھی شرح صدر عطا فرمائیں گے، جیسے نبیوں کو طبعی خوف طاری ہونے کے باوجود عطا فرمایا۔ نبی کا شیخ اللہ ہوتا ہے اور ہمارے شیخ علمائے کرام و مشائخ میں سے ہوتے ہیں۔ اگر ان کی بات مانیں گے تو اللہ ہماری طبعی کیفیات، خوف، غصہ، شہوت کے باوجود ہمیں بھی نبیوں کی طرح دلی اطمینان عطا فرمادیں گے۔

Books

WordPress Video Lightbox