Apple Podcast Google Podcast
Ask us Questions

SURAH TAHA - سورہ طہ

10/11/2021
Aayath Name: 77-82
Page: 127

Audio

Important Notes

 

🍁۱۰ نومبر ٢٠٢١ – سورت طہ – آج کی تفسیر کلاس کے اہم نکات🍁

 

🔸 وَمَآ أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ ٱلسِّحْرِ: جادوگروں نے فرعون پر الزام لگایا کہ تو نے ہی ہمیں جادوگری پرمجبور کیا ہوا تھا۔ حالانکہ جادوگر اپنی مرضی سے مقابلہ کر رہے تھے اور انعام کے خوگر تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ فرعون نے اپنے ملک میں جادوگری کی تعلیم کو جبری بنایا ہوا تھا اس لئے ہر شخص جادو سیکھنے پر مجبور تھا۔ تو حکومت نے ملک میں ایک ماحول و مزاج بنایا ہوتا ہے۔ حکومت وقت اس کی ذمہ دار کہلاتی ہے۔

 

🔸 ہمارے ممالک میں بھی اکثریتی تعلیمی نظام جو تقریباً ۹۵  فیصد ہے جس میں دنیاوی تعلیم دی جاتی ہے اور اس نظام میں اللہ کا تصور، دین کا تصور، روحانیت کا تصور، اخلاقیات کا تصور، حیا کا تصور غالب نہیں بلکہ مغلوب ہوتا ہے۔ یہ تعلیمی نظام حکومت کا نافذ کردہ ہے۔ اس تعلیمی نظام کے تحت حکومت نے ملک میں ایک ماحول بنایا ہوا جس کی ذمہ دار حکومت ہی کہلائے گی۔

 

🔸اقلیتی تعلیمی نظام جو مدارس پر مشتمل ہے اس کا کریڈٹ حکومت کے حصے میں نہیں آئے گا۔ نہ حکومت یہ کہہ کے بچ سکتی ہے کہ ہم نے دوسری آپشن تو دی ہوئی ہے۔ یہی قدرت کا اصول بھی ہے۔ للأكثر حكم الكل (اکثر پر کل کا حکم لگایا جاتا ہے)

 

🔸 یہاں غالب ہونے سے یہ مراد نہیں ہے کہ اسلامیات کی مقدار کم ہوتی ہے، اس کی کی کتاب سب سے پتلی ہوتی ہے۔ بلکہ یہ صرف سطحی سوچ ہے۔

 

🔸سائنس، سوشل سائنس، اردو یا انگلش لینگویج کی کتابوں میں بھی تو دین غالب ہونا چاہیے تھا۔ انگلش کی کتاب میں ہمیں مغربی شخصیات کے متعلق پڑھایا جاتا ہے جس میں عجیب و غریب واہیات قسم کی کہانیاں ہوتی ہیں۔ ہماری دینی، ثقافتی شخصیات اور سوچ و فکر کے عوامل بھی تو ان مضامین میں غالب ہو سکتے تھے۔ پس یہاں غالب سے مراد یہ ہوئی کہ بچوں میں روحانی سوچ کی بجائے مادی اور غیر اسلامی و اخلاقی سوچ منتقل کی جا رہی ہوتی ہے۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ ہم مغربی معاشرے سے کتنے متاثر ہیں اور ہماری سوچ کس طرح اب تک انکی غلام ہے۔

 

🔸 حکومت وقت اس اکثریتی تعلیمی نظام کی ذمہ دار کہلائے گی۔ حکومت یہ کہ کر نہیں بچ سکتی کہ ہم اس کو تبدیل نہیں کرسکتے اور ہم مجبور ہیں۔ حکمرانوں کو اللہ نے زمین میں طاقت دی ہوتی ہے۔ وہ صرف نصیحت آمیز بیان کرکے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے۔ انکا کام امر بالمعروف اور نہیں عن المنکر ہوتا ہے۔

 

🔸 صرف حکمرانوں کو برا بھلا کہنے سے عوام بھی بری الذمہ نہیں ہوسکتے کہ یہ گناہ کے کام ہماری مجبوری ہیں۔ اس کی تفصیلات میں جانا پڑے گا کہ کون سے گناہ کے کام ہم پسندیدگی سے کر رہے ہوتے ہیں اور کون سے گناہ کے کام دل کی کراہیت سے کر رہے تھے۔

 

🔸کیا ہمارے حکمران ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ فلمیں دیکھو، جھوٹ بولو، ناجائز کام کے لیے رشوت دو۔ یہ سب گناہ ہم اپنی مرضی سے کر رہے ہوتے ہیں۔

 

🔸 تعلیمی نظام انسان کی ذہن، قلب سازی کرتا ہے۔ دل کی آنکھیں کھول کر دیکھیں تو اسکولوں تک کا تعلیمی نصاب بہت حد تک خطرناک ہے۔ انگلش ادب، سوشیالوجی وغیرہ میں ایسے موضوعات ہیں جن سے بچوں کا ایمان متزلزل ہو جاتا ہے اور والدین اس سے بے خبر  ہیں۔

 

🔸 تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بچوں کو تعلیم سے ہی ہٹا لیں۔ بلکہ اس کے متبادل کی فکر اور بندوبست کریں۔ اگر بچوں کو فسق و فجور کے ماحول میں بھیج رہے ہیں تو ایسے ماحول کا بھی انکے لئے انتظام کریں جہاں پر انہیں اچھی اور سچی باتیں سننے کا موقع ملے۔

 

🔸 ایمان کی فکر لازم ہے کیونکہ یہ سب سے قیمتی چیز ہے۔ موت کے وقت ایمان نہ ہوا تو ان تمام سزاؤں کے مستحق ہوں گے جنکا قرآن میں پڑھتے ہیں۔ موت کے وقت ایمان کے سلب ہوجانے کی ایک وجہ یہ بنتی ہے کہ انسان کو اپنے ایمان کی فکر ہی نہ ہو۔

 

🔸 نبیﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے آپؐ حضرت خدیجہؓ کے پاس تھے اور ان پر موت کا وقت قریب تھا ۔آپﷺ نے فرمایا: اے خدیجہؓ جنت میں میری بیویوں کو میرا سلام کہنا۔ خدیجہؓ نے پوچھا اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے مجھ سے پہلے بھی شادی کی ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ نہیں لیکن اللہ تعالی نے مریم بنت عمران ، فرعون کی بیوی آسیہ اور موسی کی بہن کلثوم سے (جنت میں) میرا نکاح کردیا ہے۔ جس نے فرعون کے محل کو ٹھوکر ماری اللہ نے اپنے پاس گھر بھی دیا اور سب سے بہترین گھر والا دیا۔

 

🔸 نبی کی صحبت امتی کے لیے سب سے بڑا درجہ ہوتی ہے، ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی (جسے نبیﷺ  کی صحبت کا سب سے کم وقت ملا) وہ بھی اعلیٰ ترین تابعی سے افضل ہے۔

Books

WordPress Video Lightbox