Apple Podcast Google Podcast
Ask us Questions

Surah Al Hajj - سورہ حج

02/04/2023
Aayath Name:
Page:

Audio

Important Notes

🍁 ۲ اپریل ٢٠٢۳ – کلاس ۱۰ – سورت الحج 🍁

آج کی تفسیر کلاس کے اہم نکات

🔸 اِذَا تَمَنّٰۤی اَلۡقَی الشَّیۡطٰنُ فِیۡۤ اُمۡنِیَّتِہٖ ۔ قرآن مجید کے بارے میں شکوک و شبہات ڈالنے کے لئے کہ قرآن میں شیطان کا اثر ہوگیا ہے زنادقہ اور ملحدین نے اس آیت کی تفسیر میں ایک واقعے سے منفی سوچ کا بیج بونے کی کوشش کی۔ ایسا بیج انسان کی سوچ تبدیل کرنے میں بہت کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ الفاظ کانوں میں داخل ہوتے ہیں اور عقل کا حصہ بنتے ہیں اسلیے الفاظ بہت مؤثر ہوتے ہیں۔

🔸اللہ، رسول، دین، علماء کے بارے میں یہ منفی چیزیں آجکل سوشل میڈیا پر بہت ذیادہ چل رہی ہیں اور پہلے بھی تھی۔ اسکا آغاز تو۱۸۶۰ میں ہی شروع ہو گیا تھا جب انگریز نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم سرسید احمد خان کو اپنا ہم خیال بنا کر اور اسے استعمال کرتے ہوئے برصغیر میں اینگلو انڈین اسکول سسٹم کی بنیاد ڈالی۔ یہی بعد میں جاکر علی گڑھ یونیورسٹی بنا۔ یہ تعلیمی نظام مسلمانوں کے تعلیمی نظام کا متبادل تھا جو صدیوں سے رائج تھا۔ یہ تعلیمی نظام اُس وقت سے ذہنوں میں خرافات ڈال رہا ہے۔ اور سوشل میڈیا نے (icing on the cake) کا کردار ادا کیا۔

🔸تمام مشائخ اس بات پر متفق ہیں کہ ہم فتنہ دجال کے آخری دور میں داخل ہو چکے ہیں، دجال کا حمایتی نظام دنیا میں مکمل نافذ ہوچکا ہے، اب بس دجال کا ظہور باقی رہ گیا ہے۔ حدیث میں اس وقت کے بارے میں اطلاع دے دی گئی ہیں۔

ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ عنقریب لوگوں پر دھوکے والے سال آئیں گے، ان میں سچے کو جھٹلایا جائے گا اور جھوٹے کی تصدیق کی جائے گی، بددیانت کو امانتدار کہا جائے گا اور دیانتدار کو بددیانت گردانا جائے گا اور [اس زمانے میں] رویبضہ باتیں کرے گا، پوچھا گیا کہ رویبضہ کیا ہے؟ آپؐ نےفرمایا: حقیر آدمی عوام کے معاملات میں گفتگو کرے گا۔ ( سنن ابن ماجة :4036 )

🔸نبیؐ نے رویبضہ کا 1400 سال پہلے کیوں بتایا اگر اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی کیونکہ وہ حقیر آدمی ہے۔ ظاہر ہے اسی لئے کہ لوگ ایسے شخص کی بات بہت توجہ سے سنیں گے اور اثر قبول کریں گے۔ وہی سچے کو جھوٹا اور خائن کو امانتدار بنا کر پیش کریں گے۔

🔸اکستان کا بہت برا حال ہے۔ رویبضہ بھی یہ کہتے ہیں اور علماء بھی یہی بات کہتے ہیں تو کیا فرق ہے؟

🔸ویبضہ کا طریقہ واردات:
وہ ایک برے مقصد کے لئے یہ کام کررہا ہوتا ہے کہ سننے والوں میں ہر ایک کے لئے بس غصہ اور نفرت کے جذبات پیدا کردے۔
ان باتوں سے فرسٹریشن پیدا ہوتی ہے۔ اپنی غلطیوں کی کوئی اصلاح نہیں ہوتی لیکن دوسروں کی غلطیوں کی طرف توجہ مرکوز ہو جاتی ہے۔ اگر ملکی سطح کی بات کریں گے تو سب سے پہلے حکمران خراب لگتے ہیں۔ اسکے بعد ڈپریشن اور پھر مزید گناہ کا شکار ہوجاتا ہے۔

🔸علماء کا طریقہ کار (دینی نیت سے تنقید): جیسے وہ بتاتے ہیں کہ جو اللہ کے احکامات سے اعراض کرتا ہے تو اسکی زندگی تنگ کر دی جاتی ہے۔ وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِى فَإِنَّ لَهُۥ مَعِيشَةً ضَنكً- سورة طہٰ ١٢٤۔ آپ نے ملک بنایا تھا پاکستان کہ یہاں اسلامی نظام کقائم کریں گے۔ ضیاء الحق شہید کے زمانے میں جو کوشش ہوتی تھی اس کے سامنے عوام اور خواص ہی رکاوٹ بنتے تھے۔ اس تنقید کا مقصد ہے کہ تم اپنے گناہوں سے توبہ کرو اپنی زندگی کو تبدیل کرو، اللہ تعالیٰ تمہاری زندگی کو بہتر کردے گا بلکہ تمہارے دشمن سے بھی نمٹ لے گا۔

🔸حل کیا ہے؟ ان رویبضہ سے نہ جڑیں بلکہ اللہ کے قرآن سے جڑیں۔ اللہ کے قرآن کو سمجھنے کے لیے وقت کیوں نہیں نکالتے؟ مشائخ و اکابر علماء کرام سے جڑیں۔ ان نعمتوں کے بارے میں ہم سے سوال کیا جائے گا کہ ان کے ساتھ جڑنے کی بجائے سوشل میڈیا پر کیوں لگے ہوئے تھے۔

🔸ہجرت دین کی حفاظت کے لیے کی جاتی ہے۔ جب مسلمانوں نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی تو سب سے پہلے انہوں نے مسجد تعمیر کی اور اسلامی نظام نافذ کیا۔ لیکن ہم پاکستان میں دیکھتے ہیں کہ لاکھوں لوگوں نے ہجرت کرنے کے بعد صنعتیں لگائیں، سڑکیں بنائیں اور ترقیاتی کام کئے لیکن دین تو نافذ نہ کیا۔ سوائے چند علماء کرام کے جنہوں نے ایسے مدرسے بنائے جن کی نظیر اس وقت دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ جیسے دار العلوم کراچی، جامعہ بنوریہ، جامعہ اشرفیہ اور خیر المدارس ملتان وغیرہ۔

🔸عوام شریعت کا نفاذ نہیں چاہتی تھی چنانچہ جو اوپر والے چند لوگ مخلص تھے انہیں یا قتل کر دیا گیا یا اللہ تعالی نے طلب و رسد کے قانون کے تحت انھیں اٹھا لیا۔ رِزۡقًا حَسَنًا تو ملا ہی نہیں کیونکہ ہجرت عمومی طور پر دین کی حفاظت کیلئے کی ہی نہیں گئی تھی۔

نوزائیدہ بچوں کو دہلی کے ریلوے اسٹیشن پر چھوڑ کر ہجرت کرتے تھے۔ کیا یہ اولاد کا قتل نہ تھا۔ اور علماء کی بلکل نہ سننا۔ حضرت شیخ الحدیث زکریاؒ اپنی آپ بیتی میں تقسیم ہند کے باب میں لکھتے ہیں کہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور یہ نعرے لگایا کرتے تھے۔ خون بہا کے لے گے پاکستان۔ مر کے لیں گے پاکستان۔
علماء نے سمجھایا کہ یہ نعرے مت لگاؤ قبولیت کے اوقات ہوتے ہیں۔ چند دنوں کے بعد پھر خون بہا، اتنا خون بہا کہ جس کی کوئی حد نہ تھی۔

🔸سوال: آجکل علمی اختلاف پر جھگڑا لڑائی کیوں ہوتا ہے جبکہ علمی اختلاف تو ہمیشہ سے ہے اور یہ کوئی بری چیز نہیں ہے۔ جواب: جب اخلاقی تربیت نہیں ہوئی ہوتی، روحانی بیماریوں کا علاج نہ ہوا ہو، زبان پر قابو نہیں ہو، اچھے الفاظ نہیں سیکھے ہوں تو اختلاف پر بری زبان ہی چلتی ہے اور موقع ملے تو ہاتھ بھی چلتا ہے۔

🔸شیاطین اختلاف کو علماء سے بدظن کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن کمزور مسلمان، جن میں نماز کی پابندی نہ ہو، ٹی وی یا سوشل میڈیا پر فحاشی دیکھتے ہوں۔ وہ اپنی تسلی کیلئے کہتے ہیں کہ کس کے پاس جائیں، مولویوں میں تو اتنا اختلاف ہے۔ اس لیے جو مجھے سمجھ میں آئے میں کر لیتا ہوں۔ یہ سب بہانے ہوتے ہیں۔ اس پر علماء فرماتے ہیں کہ بھئی جن باتوں میں اختلاف نہیں تم صرف انہی پر عمل کرلو جیسے پانچ وقت کی نماز، گناہ سے اجتناب۔

 

Books

WordPress Video Lightbox