Apple Podcast Google Podcast
Ask us Questions

Surah Al Hajj - سورہ حج

08/04/2023
Aayath Name: 67-74
Page:

Audio

Important Notes

🍁 ۸ اپریل ٢٠٢۳ – کلاس ۱٦ – سورت الحج 🍁

آج کی تفسیر کلاس کے اہم نکات

🔸لوگ اپنی عقل کی بنیاد پر جھگڑا کیا کرتے تھے۔ عقل اتنی ہی ہے جتنا اس کا علم ہے۔ اپنی ظاہری عقل کو بنیاد بنانا درست نہیں، اسلیے انہیں جھگڑنے کا کوئی حق نہیں۔ سلطان (اتھارٹی) اللہ کے پاس ہے اور وہ اس کا اختیار اپنے بندوں کو دیتا ہے جیسے رسول اور اسکے نائبین۔

جب رسول کے نائبین یعنی علماء کہتے ہیں مجھ تک یہ بات پہنچی ہے، تو انکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میرے پیر استاد نے اپنے پیر استاد سے سیکھی، انہوں نے اپنے بڑوں سے سیکھی، اسی طرح یہ سلسلہ چلتے چلتے نبیؐ تک پہنچتا ہے۔ اور پھر نبیؐ سے جبرئیلؑ اور جبرئیلؑ سے اللہ تعالیٰ تک۔ اس پر یہ بے وقوف لوگ کہتے ہیں تم کیا خدا ہو۔ ایسے لوگوں کو کہا گیا ہے کہ چپ ہو جاؤ۔ نبیؐ اور نبیؐ کے ورثاء خدا نہیں ہیں لیکن خدا سے صحیح غلط کا علم ان تک پہنچا ہے، جبکہ تم لوگوں کے پاس یہ اتھارٹی، علم نہیں ہے۔

🔸لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا ہُمۡ نَاسِکُوۡہُ آیت کے ابتدائی حصہ سے ہمیں لگتا ہے جیسے ہر ایک کو اپنی رائے یا دین پر قائم رہنے کا حق حاصل ہے، جیسا کہ کفر کی دنیا نے انکل خوش اخلاقی کا درس دیا ہوا ہے۔ لیکن باقی الفاظ فَلَا یُنَازِعُنَّکَ فِی الۡاَمۡرِ وَ ادۡعُ اِلٰی رَبِّکَ ؕ اِنَّکَ لَعَلٰی ہُدًی مُّسۡتَقِیۡمٍ سے دوسروں کا یہ حق ختم کردیا گیا۔ کہ دیا گیا کی وہ آپ سے اس پر بحث نہیں کرسکتے۔ آپ ہی سیدھے راستے پر ہیں اور آپ ہی انکو بلانے کا کام کرتے رہیے۔ انکو اسکی اجازت نہیں ہے۔

🔸عبادت کا مفہوم: ہر بات میں اللہ کی ماننا۔ صرف چند اعمال کر لینے کا نام بندگی نہیں ہے۔ بندگی اس کو کہتے ہیں کہ جب کہا جائے نماز پڑھو تب پڑھے اور جب نماز سے روک دیا جائے تو رک جائے، جیسے عورت حیض و نفاس کی حالت میں یہ نہ کہے کہ نماز مجھے اللہ کے قریب کرتی ہے تو میں تو اس حالت میں بھی پڑھوں گی، کسی کو اختیار نہیں کہ میرے اور اللہ کے درمیان بولے۔ اگر پڑھے گی تو اسکا قیام، رکوع، سجود اور تلاوت بندگی نہیں بلکہ سراسر گندگی ہونگے۔

🔸جو لوگ اللہ کے سوا کسی کی بندگی کرتے ہیں ان کے پاس اسکی کوئی سلطان یعنی نقلی دلیل نہیں۔ بادشاہ کو سلطان کیوں کہتے ہیں۔ کیونکہ اس کو کچھ وقت کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے اللہ کی زمین میں تھوڑی سی طاقت دے دی جاتی ہے۔
اصل میں سلطان کا مطلب طاقت اور دلیل ہے جو (۱) اوپر سے کسی شخص سے مل رہی ہو یا (۲) کسی اہم لکھی کتاب کی شکل میں ہو۔ یا (۳) یا لوگوں کا کسی کو اپنا امیر بنانے پر اتفاق ہوگیا ہو۔ ایک مثال نبی کریم ﷺ کے بعد ابوبکر صدیقؓ کے امیر المومنین بننے کا واقعہ ہے۔ آپ کی خلافت کا نبیؐ نے باقاعدہ اعلان نہیں کیا تھا۔ عمرؓ نے انکی خاصیتوں کی وجہ سے انکو نامزد کیا اور سب صحابہؓ نے تسلیم کرلیا۔ اب ابوبکر صدیقؓ کے پاس اتھارٹی آگئی اور ان کے حکم پر عمل ہر ایک پر واجب ہو گیا۔

🔸سوال: مسلمان پتھر کے گھر کی طرف سجدہ کرتے ہیں اور مشرک بھی پتھر کے بتوں کو سجدہ کرتے ہیں، تو کیا فرق ہوا؟

جواب: يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَمَا لَيْسَ لَهُمْ بِهِ عِلْمٌ یعنی بتوں کو سجدہ کرنے پر الله تعالیٰ نے کوئی سلطان (نقلی دلیل) قائم نہیں کی اور نہ ان کے پاس اس کی کوئی (عقلی) دلیل ہے۔ جبکہ مسلمان جو کر رہے ہیں انکے پاس اسکی اتھارٹی ہے کہ اللہ کے رسولوں نے کعبہ کو بتایا کہ یہ تمہارا قبلہ ہے اس کی طرف سجدہ کرو۔

🔸اللہ تعالیٰ نے ایک حقیر چیز کی مثال دی، کہ جن کو یہ پوجھتے ہیں اگر یہ سارے جمع ہوجائیں تو ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین کر لے جائے تو یہ چھڑا نہ سکیں گے۔

🔸ان لوگوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسی کرنی چاہیے تھی۔ یعنی یہ لوگ اللہ کو معبود، خالق، مالک، رازق سب سمجھتے تھے، لیکن اپنی عقل کے مطابق اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ اللہ کی قدر اللہ کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کرنی ضروری ہے۔

ہم بھی اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے فرائض کو نوافل بنا دیتے ہیں اور نوافل کو فرائض۔ یا جو فرائض اپنے مزاج کے خلاف نظر آ رہے ہو ان کو سرے سے فرض ماننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو مولویوں کی بنائی ہوئی چیز ہے۔ یہ بھی اللہ کی قدر کا حق ادا نہ کرنا ہے۔

🔸دلیلیں دو طرح کی ہوتی ہے (۱) نقلی (۲) عقلی۔
(۱) نقلی جو کہ اوپر سے اتھارٹی کی شکل میں ملتی ہے۔ جیسے نبیؐ نے معاذ بن جبلؓ کو یمن بھیجا یا میاں بیوی کا رشتہ کہ شوہر کے پاس نبیؐ سے ملی اتھارٹی ہے۔ اس اتھارٹی سے اطاعت واجب ہو جاتی ہے۔
(۲) عقلی دلیل یہ ہے کہ اپنی عقل استعمال کرے مگر بغیر علم کے محض عقل کی بنیاد پر تو دلیل نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ عقلی دلیل اس کو کہا جائے گا کہ ضروری علم کے ساتھ اجتہاد کرکے کوئی بات ثابت کی جائے۔

 

Books

WordPress Video Lightbox