Apple Podcast Google Podcast
Ask us Questions

Surah Al Hajj - سورہ حج

09/04/2023
Aayath Name: 71-74
Page:

Audio

Important Notes

🍁 ۹ اپریل ٢٠٢۳ – کلاس ۱۷ – سورت الحج 🍁

آج کی تفسیر کلاس کے اہم نکات

🔸اللہ تعالیٰ نے اپنے علاوہ کسی بھی چیز کی عبادت کی اجازت نہیں دی ہے۔ دائرہ شریعت میں رہتے ہوئے ہم مدد، مشورہ مانگ سکتے ہیں لیکن عبادت نہیں کر سکتے۔

🔸غلو کا مطلب حد سے آگے بڑھ جانا۔ جیسے ہم اپنے بزرگ، علماء کی عزت کرتے ہیں اور انکے لیے اچھے الفاظ اور القابات استعمال کرتے ہیں مثلاً شیخ المشائخ، محبوب العلماء۔ غلو کا مطلب یہ ہو گا کہ انکو انسان یا امتی کے درجے سے اوپر لے جانا، ایسی صفات کو حامل قرار دینا جو فرشتوں یا نبیوں میں ہوں۔ جیسے وہ معصوم ہیں یعنی ان سے گناہ ہو ہی نہیں سکتا، معصوم ہونا نبیوں کی صفت ہے۔ مشائخ میں جو ولایت کبرہ کے درجے پر پہنچ جائے انکے لیے محفوظ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یا کہنا انکو نعوذباللہ اللہ کی صفت علم الغیب مل گئی ہیں، اور ہر وقت ہی کشف ملا ہوا ہے۔
اس حد سے بڑھ جانے کو غلو کہتے ہیں اور یہ آگے چل کر شرک کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔

🔸دشمنی میں غلو یہ ہے کہ کفار کے سامنے جب اللہ کی آیات تلاوت ہوتی تو اس عربی کلام کی فصاحت و بلاغت و حلاوت کا قائل ہونے کے باوجود اس کے مضمون کے مواد کے اپنی خواہشات کے برعکس ہونے کی وجہ سے غصے کے مارے انکے تیور ہی بدل جاتے اور قریب ہوتا کہ وہ نبیؐ اور صحابہؓ پر حملہ ہی کر دیں۔ ایسے موقع بھی آئے جب حملہ کر بھی دیا۔ ان کو نہ اللہ کا انکار تھا نہ نبیؐ کی ذات سے کوئی مسئلہ تھا بلکہ انکو صرف اس پیغام کی دعوت کی وجہ سے آپ سے دشمنی تھی۔

🔸سوال: قرآن میں کونسا ایسا جمال تھا کہ صحابہؓ سن کر مسلمان ہو جاتے تھے، اور ہمارے اوپر کیوں اثر نہیں ہوتا؟

🔹 اُس وقت کے سارے لوگ سنتے ہی مسلمان نہیں ہوجاتے تھے بلکہ بہت سے اس طرح کی دشمنی میں مبتلاء بھی رہتے تھے۔ جب کسی وجہ سے انکے دل سے دشمنی نکلتی تھے تب جاکے مسلمان ہوتے تھے۔

🔹 ہم تو دشمن نہیں پھر بھی ہمارے اوپر قرآن کا اثر اس لئے نہیں ہوتا کیونکہ
(۱) ہم نے عربی زبان نہیں سیکھی چنانچہ ہمیں تو مضامین کا پتہ ہی نہیں ہوتا۔

سنا ہے جنت میں ہوگی بولی عرب کی
مگر ہم نے سیکھی ہے انگلش غضب کی

عربی سیکھنا انتہائی آسان کام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قرآن کو سمجھنے کے لیے اس کو آسان بنایا ہے۔

(۲) عربی آتی ہے لیکن پھر بھی اثر نہیں ہوتا۔ جیسے آج کے عربوں پر اثر کا نہ ہونا۔ اپنی زندگی کے شب و روز کو بدلنا ہو گا۔ چونکہ دل بیمار ہوتا ہے اس لیے اس پر اثر نہیں ہوتا۔ جیسے نزلہ والے مریض کو خوشبو سونگھائیں تو اس کو خوشبو نہیں آتی۔

گانے بھی سنیں اور قرآن کا اثر بھی ہو، ٹی وی پر ناجائز چیزوں کو بھی دیکھے اور قرآن کا اثر بھی ہو، ایسا نہیں ہو سکتا۔ اُدھر چھوڑنا پڑے گا تو اِدھر اثر ہوگا۔

🔸دوسری طرف وہ باہر کے لوگ جو کہ نبیﷺ سے بغض و عناد نہیں رکھتے تھے یا وہ قریش جن میں تکبر و بغض نہیں تھا، وہ قرآن کے مضامین کو سن کر مسلمان ہوجاتے تھے یا اس کی تصدیق کرتے اور کچھ عرصے بعد ایمان لے آتے۔

🔸مخالفت کرنے والے نبیﷺ کے قریبی لوگ، رشتے دار تھے۔ حالانکہ آپؐ سے اچھے اخلاق والا کوئی نہیں ہو سکتا۔ لیکن جسکو بغض ہو جائے اس پر کوئی چیز اثر نہیں کرتی۔
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَ مَا الرَّحْمٰنُۗ-اَنَسْجُدُ لِمَا تَاْمُرُنَا (٦۰) سورة الفرقان
اور جب ان سے کہا جائے رحمٰن کو سجدہ کرو توکہتے ہیں: اور رحمٰن کیا ہے؟ کیا ہم اسے سجدہ کرلیں جس کا تم ہمیں کہتے ہو۔
ان کو اللہ، رحمٰن اور رحیم کو سجدہ کرنے میں مسئلہ نہیں تھا بس نبیؐ سے اس پیغام کہ وجہ سے چڑ تھی۔

🔸قرآن مجید کہانیوں کی کتاب نہیں ہے اگر ہم اس میں سے اپنی زندگی کے لئے سبق حاصل نہیں کر رہے تو ہم اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ آج کل ہم بھی یہی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے خاندان کا وہ بچہ جو ہمیں بہت عزیز ہو اگر یہ کہنا شروع کردے کہ یہ جو آپ کام کر رہے ہیں یہ اللہ کے حکموں کے خلاف ہے اور یہ آپ کو نقصان پہنچائے گا، تو ہم اس سے ناراض ہو جائیں گے اور اسکو جواب اپنے اخلاقی سطح کے مطابق دیں گے۔ اللہ کے حبیبؐ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا اور آج بھی آپ کے طریق پر چلنے والوں کے ساتھ یہی ہوگا۔ لیکن ہمارا کام ہے کہ یہ کام کرتے رہیں۔ ہدایت تو اللہ کے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے۔

اِنَّكَ لَا تَهۡدِىۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ يَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ‌ؕ وَهُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُهۡتَدِيۡنَ‏
ترجمہ: آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ الله جس کو چاہے ہدایت کر دیتا ہے اور ہدایت پانے والوں کا علم (بھی) اسی کو ہے۔ ٥٦ سورة قصص۔

🔸یہ قرآن کے ساتھ زیادتی ہے کہ ہم اسے مزے لینے کے لیے سنیں اور اس کے احکامات پر عمل کرنے سے گریز کریں۔

🔸بدیہی (جس کے لئے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں پڑتی) دلیل:
اللہ شرک کو واضح کرنے کے لئے ایسی ہی دلیل لاتے ہیں کہ قرآن کو کان لگا کر سنو۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ جن کو اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ ایک ادنیٰ مکھی کو بھی پیدا نہیں کر سکتے گو کہ سب لوگ مل بھی جائیں۔ اور پیدا کرنا کیا اگر میری پیدا کی ہوئی ایک مکھی بھی ان سے کچھ چھین کر لے جائے تو اس کو اس سے چھڑا بھی نہیں سکتے۔

🔸اللہ تعالی اس بات کو انتہائی پرسنلی لیتے ہیں کہ جس کو یہ ذلیل اور کمزور سمجھتے ہیں اسی کو اللہ کے ساتھ لگاتے ہیں۔ جیسے پتھر کو جس کو سب ذلیل چیز سمجھتے ہیں زمین پر اپنے پیروں کے نیچے رکھتے ہیں، کسی عزت کے قابل نہیں سمجھتے اسی سے بنے بتوں کو اللہ کا شریک مددگار بناتے ہیں۔ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ان کے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دینے پر، کہ جن کو تم صنف نازک کہتے ہو ان کو اللہ کے ساتھ لگا دیا۔ جبکہ اپنے لئے بیٹے پسند کرتے ہو، حالانکہ بیٹی والوں کو اپنے معاشرے میں کمزور سمجھتے ہو۔ (فَاسْتَفْتِهِمْ اَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَ لَهُمُ الْبَنُوْنَۙ (۱۴۹)
(ترجمہ تو ان سے پوچھو، کیا تمہارے رب کے لیے بیٹیاں ہیں اور ان کیلئے بیٹے ہیں ؟) ۔ نعوذ باللہ

یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی اولاد ماں باپ کا صرف حکم ماننے سے انکار نہ کرے بلکہ اپنے والدین کی طرف جس چیز کو سب سے غلیظ سمجھتا ہے منسوب کردے۔ جیسے کہے کہ میری امی تو پیشاب پاخانے سے محبت کرتی ہے۔ ایسی اولاد سے ماں باپ کتنا غصہ ہونگے اور اگر پتھر کے دل والے نہیں ہونگے تو اسکو فورا سزا دیں گے۔ قربان جائیں اللہ کے حلم پر کہ ایسے بندوں کو ڈھیل دیتے ہیں اور اگر
توبہ کرلیں تو ان باتوں کو معاف بھی کردیتے ہیں۔

 

Books

WordPress Video Lightbox