Apple Podcast Google Podcast
Ask us Questions

Surah Naml - سورہ نمل

16/04/2023
Aayath Name:
Page:

Audio

Important Notes

🍁 ٦ اپریل ٢٠٢۳ – کالس ٢٥ – سورت النمل 🍁

آج کی تفسیر کلاس کے اہم نکات

🔸تل ُمۡح ِسنِۡی َنَۡمَع الََواِ َّن ّٰللاَُهۡم ُسبُلَنَاِذۡی َن َجا َه ُدۡوا فِۡینَا لَنَۡهِدیَنََّّاور جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں )اور مشقت اٹهاتے ہیں( ہم ضرور انہیں اپنی راہیں دکهائیں گے اور بیشک ہللاضرور محسنین )نیکی کرنے والوں( کے ساته ہے۔

🔸چہرے کے پردے کے بارے میں گزشتہ درس میں زیادہ قرآن یا حدیث کے دالئل نہیں رکهے گئے اور عقلی دلیل پر توجہ مرکوز کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس دور میں کسی کی ماننا نہیں چاہتے ہمیں اپنی رائے سب سے زیادہ عزیز ہے اور رائے عقل کی بنیاد پر بنتی ہے اور عقل حاصل کیے گئے علم یا مشاہدے کے بقدر ہی ہوتی ہے۔ ہماری عقل کو جو بات سمجه میں آتی ہے ہم بس اسی کو حتمی سمجهتے ہیں۔

🔸اس دور میں قرآن کی تفسیر جو مفسرین بتاتے ہیں کہ ظاہری طور پر ترجمہ سے تو یہ مطلب نکل رہا ہے لیکن اس کا اصل مطلب یہ ہے۔ کیونکہ مفہوم سمجهنے کے لئے پورے قرآن کا علم، نب ی کی سیرت، احادیث کا علم، امت کا اجماع، عالم کا قیاس ان سب چیزوں کو ملحوظ خاطر رکها جاتا ہے۔ عام آدمی میں ان علوم کا ادراک نہیں ہوتا، یہ تو عالم ہی کا کام ہے۔ لیکن جس دور سے ہم گزر رہے ہیں، ہم عالم دین کو اس قابل ہی نہیں سمجهتے کہ اس کی بات سنیں اور مانیں۔ یہ دور خود پسندی اور خود رائی کا ہے۔

🔸اب آئمہ کرام نے کیا فرمایا اس کا حوالہ دے دینا کم ہی لوگوں کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔ ہاں اس وقت مفید ہوتا ہے جب آئمہ کا قول ہماری رائے سے موافقت رکهتا ہو۔ اگر ہم پہلے سے کسی بات کو سوچ کر بیٹهے ہوئے ہیں اور اس پر ہمیں آئمہ کا کوئی قول بهی مل گیا تو یہ ہمارے نفس کو مطمئن کرنے کے لئے اچها ہوتا ہے۔

🔸علماء اور مشائخ کیا کام کرتے ہیں۔ ہم نے ان کا کام محض نماز جنازہ پڑهانا، وقت پر اذان اور نماز پڑهانے تک محدود کر دیا ہے۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ مولوی سیاست، ملکی نظام میں مداخلت کرے۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمیں بتایا جائے کہ ہمارا دین سیاست، معاشرت اور کاروباری معامالت میں کس طرح ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ اصل میں ہم ہللا کے دین کے کردار کو محدود کر کے اپنی خواہش پرستی کو دین بنا کر اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ جو مجهے سمجه میں آتا ہے وہ دین ہے اور جو مولوی بتا رہا ہے وہ غلط ہے۔

🔸مولوی صاحب کا کام روحانی بیماریوں سے بچانا ہوتا ہے۔ ہم نے صرف جن چڑه جانے کو روحانی بیماری کا نام دے دیا ہے۔ روحانی بیماریوں میں شہوت، غصہ، حرص، حسد، تکبر، عجب، دنیا کی محبت اور آخرت سے غفلت ہے۔ ان روحانی بیماریوں سے بچنے کا طریقہ ہمارا دین ہمیں سکهاتا ہے۔ اور اگر یہ روحانی بیماریاں لگ چکی ہیں تو ان سے صحت یاب کیسے ہونا ہے یہ بتانا سکهانا بهی مولوی صاحب کا کردار ہے۔

🔸معاشرہ یا ملک ان بیماریوں کے لگ جانے کی وجہ سے بیمار ہو چکا ہے۔ اس کو کس طریقے سے ٹهیک کرنا ہے، یہ بهی دین بتاتا ہے۔ اسی کو سیاست کہتے ہیں۔ یہ ہمارا دین ہمیں سکهاتا ہے، اور یہ مولوی صاحب کا کام ہے۔ یوں دین دنیا کے ہر شعبہ کا احاطہ کیے ہوئے ہے

🔸مرد کے دل میں عورت کے چہرے کو دیکهنے سے جو فتنہ پیدا ہوتا ہے اس کی چند مثالیں )۱ )خوبصورتی دیکهنے والے کی آنکهوں میں ہوتی ہے۔ )beholder the of eyes the in lies Beauty )ضروری نہیں کہ چہرہ گورا ہوگا تب ہی فتنہ کا اندیشہ ہے۔ چہرہ ہر صورت میں چهپانا ہوگا کیونکہ دیکهنے والے کی پسند کا ہمیں نہیں پتا۔ )٢ )
ایک موٹیویشنل اسپیکر جو کہ اپنے سننے والوں میں زندگی کا مقصد، امید، محبت، چاہت کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ وہ اپنی بات بے پردہ عورتوں کی موجودگی میں کر رہا ہے۔ اتنی ساری خواتین اس سے ذہنی طور پر متاثر ہو رہی ہوتی ہیں۔ و سامنے اپنے چہروں کی خوبصورتی کے ساته موجود ہیں۔ اب کونسی خاتون ان کو پسند آجائے یا کونسی خاتون انہیں اپنے آپ کو پسند کروا لیں، اپنی زندگی کے دکه وغیرہ بیان کر کے اور پهر یہ ایک دوسرے کو اپنانے کا فیصلہ کرلیں۔۔۔۔ تو جب پہلی بیوی کو معلوم ہو تو گهر میں فساد برپا ہوگا، بچے متاثر ہونگے۔ یا پهر گهر سے باہر چهپ کر تعلقات بنا لے گا۔ پاکستانی معاشرے میں بہت زیادہ affairs extramarital موجود ہیں۔ اسکو فتنہ کہتے ہیں۔ )۳ )یونیورسٹی، کالج اور آفس میں بے پردہ خواتین کے ساته پڑه اور کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اب انسان پتهر کا تو نہیں بنا کہ اس کے جذبات میں تغیر نہ ہو۔ اسکو فتنہ کہتے ہیں۔ سفر پر عورت کے ساته بیٹه گئے اور اس سے باتیں شروع ہوئی اور تعلق بن گیا۔ حتی کہ گهر کی خادمہ پر گهر کا مرد عاشق ہوگیا۔ ایسے کافی سارے فتنے والے واقعات موجود ہیں جو مشائخ علماء کے علم میں آتے رہتے ہیں۔ فتنے کا اندیشہ ہر ایک کو ہونا چاہیے، اتنا تکبر انسان میں نہیں ہونا چاہئے کہ اپنے آپ کو اس سے محفوظ سمجهے۔

🔸خالق >- انسان >- فرشتے >- جن >- حیوانات >-نباتات >-جمادات >- بت پرست انسان انسان نے شرک کر کے ہللا کی بنائی ترتیب کو الٹ دیا اور اس جہاں کی عبادت شروع کر دی جسکو ہللا نے انسان کی خدمت کے لئے بنایا تها۔ انسان بدبخت نے اپنے اوپر والے کی عبادت کرنے کی بجائے اپنے نیچے والوں کی عبادت شروع کر دی۔ اس خدمت کی لڑی میں سب سے اوپر انسان ہے اور سب سے نیچے جمادات ہیں۔ بت پرست انسان جمادات سے بهی بد تر ہو جاتا ہے کہ اس نے جمادات کی عبادت شروع کردی۔ کهیتیاں سر سبز ہیں تیری غذا کے واسطے چاند سورج اور ستارے ہیں ضیاء کے واسطے بحر و بر شمس و قمر ماہ و شما کے واسطے یہ جہاں تیرے لئے ہے تو خدا کے واسطے جس نے شرک کیا اس نے سب سے بڑا گناہ کیا، اسی لئے ہللا نے پہلے ہی اعالن فرما دیا کہ شرک کو معاف نہیں کرونگا۔ ی نے اپنی رغبت طلب محبت اور عبادت کے لئے کیونکہ ہللا نے سارے جہاں کو انسان کی خدمت کے لئے بنایا تها۔ ہمیں ہللا تعال بنایا تها۔ کہ ہم اس رغبت کو طلب اور پهر محبت میں تبدیل کریں۔ یہ محبت ایسی ہو کہ ہم ہللا کے سوا کسی سے نہ کریں۔
ال مرغوبي إال ہللا
ال مطلوبي إال ہللا
ال محبوبي إال ہللا
ال إله االہ

🔸جہنم میں عیسائی اور یہودی مشرکین سے اوپر کیوں ہیں کہ انہوں نے جمادات کو ہللا کا شریک نہیں کیا۔ انہوں نے شرک اور
کفر تو کیا لیکن جس درجے کا شرک کیا اسی درجے کی جہنم کا درجہ پایا۔

🔸جمادات کے اندر پتهر، لکڑی، سونے کے بت کے عالوہ ریت کی ترقی یافتہ فارم Silicon کے بت بهی شامل ہیں جنہیں gadgets اور devices کہتے ہیں۔ ان کے ساته ہماری رغبت ہوتی ہے، یعنی ہر وقت انہیں پر توجہ مائل رہتی ہے، جو پهر طلب میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ جیسے ہر آنے والے نئے موبائل فون کی طلب۔ کسی چیز کی رغبت حاصل کرنے کے لیے ایک شعوری محنت کرنی پڑتی ہے، اس پر توجہ مرکوز کرنی ہوتی ہے۔ پهر رغبت اسے حاصل کرنے کے لئے پیسے کمانا۔ طلب کے بعد مطلوب سے طلب بنتی ہے تو اس کیلئے اور زیادہ محنت کرنی ہوتی۔ مثالً حاصل ہو گیا تو محبت کے لئے محنت نہیں کرنی پڑتی ہے۔ رغبت اور طلب کے ساته کسی بهی شئی کے ساته اکٹهے رہنے سے الزما یدا ہوجاتی ہے۔ جب یہ محبت بڑهتی جائے گی تو باآلخر عبادت میں بهی تبدیل ہوجائے گی

🔸لوگ ان چیزوں کو ہلکا سمجه رہے ہوتے ہیں خصوصاً دیندار کیونکہ وہ ہللا اور علماء پر احسان جتالتے ہیں کہ ہم تو ڈانس، میوزک، شراب استعمال نہیں کرتے ہیں۔ یہ بے ضرر harmless قسم کی چیزیں ہیں ان کے ساته وقت گزارنے میں کیا قباحت ہے۔ ہم اپنی اوالد کے لیے بهی ان کو ہلکا سمجه رہے ہوتے ہیں۔ اس کو ہلکا نہ سمجهئے۔ بچے gadgets کی رغبت میں مبتال ہیں اور اس کی طلب کا شکار ہیں۔ اور طلب کے بعد عبادت میں ہلکا سا دهکا ہی رہ جاتا ہے۔ یہ ضرورت کی چیزیں ہیں ان سے ضرورت حاصل کرنا سیکهئے۔ یہ رغبت طلب اور عبادت کی چیزیں نہیں ہیں۔ جو ان میں مبتال ہو گیا تو اس کے لیے اس دنیا اور آخرت میں دخول فی النار ہے یعنی ہر حسرت کی آگ میں یہاں جلتا رہے گا، اور اگر توبہ نہ کی تو جہنم کی آگ میں بهی جلے گا۔ اور اگر عبادت کے درجے پر لے گیا تو خلود فی النار ہے۔ یعنی ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔

 

Books

WordPress Video Lightbox