Apple Podcast Google Podcast
Ask us Questions

Surah Naml - سورہ نمل

19/04/2023
Aayath Name:
Page:

Audio

Important Notes

🍁 ۱۹ اپریل ٢٠٢۳ – کلاس ۲۷ – سورت النمل 🍁

آج کی تفسیر کلاس کے اہم نکات

🔸رسولﷺ کی دل کی خواہش تھی کہ ہر انسان اللہ کا پیغام قبول کر لے اور نہ کرنے کی صورت میں آپؐ غمگین ہو جاتے تھے۔ اس پر اللہ نے آپؐ کو تسلی دی۔ آپؐ کا کام حق بات کو پہنچانا تھا، اصل میں تو اللہ تعالیٰ ہدایت دینے والے ہیں۔ یہی ہمارے لئے بھی ہے۔ حق بات کا اچھے انداز سے پہنچا دینا۔

🔸اللہ اور نبی کا تعلق شیخ اور مرید کا تعلق ہے۔ اللہ استاد بھی ہیں اور نبیؐ شاگرد بھی اور واسطہ تعلیم کا جبرائیلؑ ہیں۔ اللہ نبیؐ کی تعلیم و تربیت حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ پورا قرآن مجید اس تعلیم و تربیت سے مزین ہے جو اللہ کی نبیؐ کے ساتھ محبت بھری اور تنبیہی باتوں پر مبنی ہے۔ چنانچہ نبیؐ جو محنت کرتے ہیں اس کے دوران غم کی کیفیت بھی آتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ دیکھتے ہیں کہ یہ اعتدال سے زیادہ ہو رہی ہے تو نبیؐ کو نصیحت فرماتے ہیں کہ ایسا نہ کریں۔ یہی شیخ / بڑے کا کام ہوتا ہے کہ نصیحتیں کرتا رہے چاہے چھوٹے اچھے سے ہی کام کر رہے ہو۔ اس پر چھوٹوں کو برا نہیں منانا چاہیے۔ نبیؐ کو اطمینان بھی دلا رہے ہیں کہ آپ کی پیغام رسانی میں کوئی مسئلہ ہوتا تو کوئی بھی آپ کا پیغام قبول نہ کرتا اور کسی کو بھی بات سمجھ نہیں آتی۔ لیکن جو سمجھنا چاہتے ہیں ان کو بات سمجھ آ رہی ہے، جو نہیں مانتے وہ ضد کی وجہ سے نہیں مانتے۔

🔸آخرت عقلی دلائل سے بھی واضح ہے۔ مثلاً جس نے لاکھوں انسانوں کا قتل کیا ہو تو دنیا میں اسے ایک دفعہ قتل کر کے سزا دی جاسکتی ہے۔ تو باقی قتلوں کی سزا اسے کون دے گا۔ کتنے لوگ ہیں جو گرفتار نہیں ہوتے۔ جیسے پاکستان میں لیاقت علی خان، فاطمہ جناح، ضیاء الحق کو قتل کیا۔ قاتل کا آج تک پتہ ہی نہیں چلا۔
علماء کرام کے قتل کی تو ایک لمبی لائن لگی ہوئی ہے۔ حضرت مولانا یوسف لدھیانویؒ، مولانا نظام الدینؒ شامزئی، مولانا اسلم شیخوپوریؒ، مولانا حبیب اللہ مختارؒ، مولانا ڈاکٹر عادل خانؒ۔ کس نے قتل کیا کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ تو دین کا کام کرتے تھے، کیا انکے بیوی بچے نہ تھے۔ اس ظلم کی سزا کس نے دینی ہے، اس لئے اللہ نے آخرت کا نظام بنایا ہے کہ مظلوم کو انصاف مل سکے۔

🔸صلاحیتِ قبول کو انسان کیسے کھو دیتا ہے؟
جواب: دو وجہیں ہوتی ہیں،
(۱) ہٹ دھرمی، انانیت اور تکبر، اس کو بات سمجھ آرہی ہے لیکن مان نہیں رہا
(۲) بات ہی سمجھ میں نہیں آرہی، اس کی وجوہات منتشر ذہن کا ہونا ہے۔ distractions / lack of focus ہوتے ہیں۔ یہ ان کا گناہ ہوتا ہے کہ کیوں توجہ نہیں دیتے اور منتشر رہتے ہیں۔

🔸دنیا میں انسانی معاشرے کے دو درجے ہوتے ہیں
(۱) خواص/ لیڈران
(۲) عوام الناس

ان دونوں میں یہ فرق ہوتا ہے کہ لیڈر کے پاس علم ہوتا ہے اور اس کی عقل علم کی وجہ سے دوسروں سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ عوام کے پاس ہنر والا علم ہوتا ہے لیکن لیڈر بننے کیلئے جس خاص قسم کے علم کی ضرورت ہوتی ہے وہ نہیں ہوتا۔

🔹 * لیڈر کیوں گمراہ ہوتے ہیں* جب علم آگیا اور اس پر شکر ادا نہ کیا تو اس سے تکبر، انانیت، عجب پیدا ہوتا ہے۔ تو لیڈر تکبر کی وجہ سے اپنی صلاحیت قبول کو کھو دیتے ہیں۔ اپنے علم کی وجہ سے انکو پتہ ہوتا ہے کہ دعوت دینے والا نبی صحیح بات کر رہا ہے۔ مگر حق بات کو نہیں مانتے کیونکہ ان کی لیڈر شپ داؤ پہ لگتی ہے۔

🔹عوام کیوں گمراہ ہوتے ہیں کیونکہ عوام کے پاس علم نہیں ہوتا، انکی ذمہ داری بس اتنی ہوتی ہے کہ نیک اہل علم رہنماؤں کی بات توجہ سے سنیں اور انکی اتباع کریں۔ لیکن جب یہ نیکوں کی طرف توجہ نہیں کرتے کیونکہ اس میں انکی خواہش پرستی والی زندگی داؤ پہ لگتی ہے تو پھر اللہ تعالی انہیں مفاد پرست لیڈروں کے حوالے کردیتا ہے جو ان کو لیڈر مویشیوں کی طرح ہانکتے ہیں۔ عربی کا مقولہ ہے العوام کالانعام عوام تو مویشیوں کی طرح ہوتی ہے، اور اردو کا مقولہ ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ عوام کی آخرت فکر پر اللہ تعالیٰ انکو اچھا رکھوالا دے دیتے ہیں اور نفس پرستی کریں تو برے رکھوالے کے حوالے کردیتے ہیں۔ تو عوام کو توجہ مرکوز کرکے بس یہ دیکھنا تھا کہ کون شریف، متقی، باحیا لیڈر ہے۔ دجالی لیڈروں کی بات نہیں سنی تھی۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:

🌹أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا) سورہ فرقان
ترجمہ: کیا آپ گمان رکھتے ہیں کہ بہت سے ان میں سنتے یا سمجھتے ہیں۔ نہیں ہیں وہ سوائے چوپایوں کے جیسے بلکہ (چوپایوں سے بھی) زیادہ راہ سے بہکے ہوئے ہیں۔

🔸کبھی یوٹیوب پر کسی کو سن رہے ہیں کبھی کسی کو، ان کے خیال میں جتنے زیادہ لوگوں کو سنیں گے اتنا زیادہ علم حاصل ہوگا۔ حالانکہ علم میں بھی فوکس ضروری ہے، علم پر عمل بھی کرنا ہوتا ہے۔ کبھی کسی کو سنا کبھی کسی کو اس طرح عمل کا وقت تو بچا ہی نہیں۔ ہر جگہ منہ مارنا الگ چیز ہوتی ہے اور علم حاصل کرنا الگ چیز ہوتی ہے۔

اہل جمعیت کی صحبت ملنے کی بزرگ دعا مانگا کرتے تھے۔ جمعے کے دن میں ایک قبولیت دعا کا لمحہ ہوتا ہے۔ ایک موقع پر ایک بہت بڑے بزرگ غالباً خواجہ عبید للہ احرارؒ نے فرمایا کہ اگر مجھے وہ گھڑی مل گئی تو میں اس میں اہل جمعیت کی صحبت مانگوں گا۔ رغبت اور طلب والی صحبت۔ تو قلبی جمعیت being focused اتنی بڑی چیز ہوتی ہے کی جن کے پاس ہوتی ہے انکی صحبت سے دنیا اور آخرت سنور جاتی ہے۔

🔸عوام الناس کا فرض تھا کہ وہ focused ہوتے اور جتنا علم تھا اس کی بنیاد پر صحیح لیڈر کو select کرتے۔ لیکن انہوں نے خود کو defocus کرکے اپنی اس صلاحیت کو کھو دیا۔

🔸ہر نبی نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اطاعت میری کرو۔ یعنی مجھ سے مت ڈرو کیونکہ میں تو انسان ہوں میرے سامنے تو اچھے سے رہ رہے ہو لیکن میرے پیچھے برے کام۔ میں تمہیں ہر جگہ نہیں دیکھ سکتا لیکن اللہ ہر جگہ اپنے علم کے ساتھ موجود ہے تو اللہ سے ڈرو اور ہر وقت ٹھیک سے رہو۔ اللہ کا حکم کیا ہے یہ البتہ میں تمہیں دوں گا تو میری بات مانو۔

ایک امیر کبیر عرب آسٹریلوی مسلمان کو کینسر diagnose ہوا۔ گناہوں میں نہیں تھے مگر دنیاوی شوق ذیادہ تھے۔ موت کی فکر نہیں تھی لیکن کینسر کے بعد صدقہ جاریہ والے بہت کام کئے. ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو سب سے زیادہ ندامت کس بات پر ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ ایک سوٹ بوٹ والے آدمی یعنی ڈاکٹر نے بتایا کہ میں مرنے والا ہوں تو میں نے اس کی بات کو مان لیا لیکن اللہ تعالیٰ مجھے ساری عمر بتاتا رہا کہ تم نے مرنا ہے اور میں نے اللہ کی بات پر توجہ نہ دی اور آخرت کی تیاری نہ کی۔
اس کا ایک پہلو تو ظاہر ہے، لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے یہ بات کہنے میں غلطی کی کہ ایک طرف تو دنیاوی انسان ڈاکٹر کو رکھا جس کی بات مان لی لیکن دوسری طرف الله کو رکھا۔ حالانکہ اس طرف بھی ایک اللہ والے انسانوں کو رکھنا چاہیے تھا جنکو اللہ نے نصیحت کے لئے بھیجا تھا۔ لیکن ہماری یہی غلطی یہی ہوتی ہے کہ ہم نیک بندوں کی بات نہیں مان رہے ہوتے لیکن وہی بات کسی دنیادار انسان سے مان لیتے ہیں۔

🔸سماعِ موتٰی والی آیت سے یہ بات ثابت نہیں کہ مردے زندوں کا کلام سن سکتے ہیں یا نہیں۔ اللہ نے ہمارے اور مردوں کے درمیان برزخ کی ایک آڑ رکھی ہے۔ برزخ کے ایک طرف یعنی زندوں کے لئے اللہ نے سننے کے لئے کانوں کا نظام رکھا ہے۔ لیکن برزخ میں مردے کو اس کانوں والے نظام سے بات نہیں سنا سکتے اس کے لئے ایک special communication method کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں وہ نظام ہوگا وہاں بات سنائی جاسکتی ہے ورنہ نہیں۔ اللہ اس صلاحیت اور اختیار کو اپنی مرضی سے جب چاہتے ہیں عطا کرتے ہیں۔ سماعِ موتٰی ( مردے کا زندوں کا کلام سننا) یہ عام صورت ہے یا استثنائی exceptional صورت ہے۔ اس میں علماء کا علمی اختلاف ہے۔ جیسے کشف (روحانی دنیا کی کوئی چیز سننا) ایک exceptional صلاحیت ہے، اللہ تعالیٰ کسی کو کسی وقت دے دیتے ہیں۔ عام دستیاب نہیں ہے۔

 

Books

WordPress Video Lightbox