Apple Podcast Google Podcast
Ask us Questions

Surah Yousuf Class 55 - Ramadan 1445 Day 23

02/04/2024
Aayath Name: 63-66
Page: 100-102

Audio

Important Notes

23 رمضان المبارک، تفسیر سورۂ یوسف، اہم نکات:

آیات نمبر 63 – 66 معارف القرآن جلد نمبر 5 صفحہ 100- 103.

🔹ایمان لانے کا مطلب ہے اعتبار کرنا:
ہم نبی کریم ﷺ نے جو کچھ بتا دیا اور غیب کی جو بھی خبریں دیں ان پر اعتبار کرتے ہیں۔ یہ باتیں ہم تک صحابہ کرام اور اسکے بعد ہر زمانے کے علماء سے ہوتی ہوئی اپنے زمانے کے علماء ومشائخ کے ذریعے پہنچیں۔

🔹ہم اپنے ہم عصر علماء پر اسلئے اعتبار نہیں کرتے اور بہ نسبت ان کے چًھپی ہوئی کتابوں پر اعتبار کرتے ہیں۔ کیونکہ علماء روک ٹوک کرتے ہیں جو ہم سننا نہیں چاہتے ۔

🔹علماء پر اعتبار نہ کرنے کا
▪️پہلا سبب ہمارا نفس
▪️اور دوسرا دین کے ڈاکو یعنی دشمن ہیں۔ جن میں اولین دشمن یہود ہیں۔

🔹کیونکہ دین کے ڈاکوؤں کو سب سے زیادہ خطرہ دین کے محافظوں اور چوکیداروں سے ہوتا ہے جو کہ علماء کرام ہیں اسلئے وہ ان کو راستے سے ہٹانے یا خراب کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

🔹اور دین کےسب سے پہلے محافظ و چوکیدار صحابہ کرام ہیں۔ اسلئے دین کے ڈاکو سب سے ذیادہ ان سے دشمنی رکھتے ہیں۔

🔹اور دین کے سب سے پہلے ڈاکو اور دشمن یہود ہیں۔ کیونکہ آپﷺ کے مدینہ آنے سے پہلے ان کا سکہ چلتا تھا۔ اور آپﷺ کی آمد کے بعد ان کی کوئی عزت نہ رہی۔

🔹 یہود کو ذیادہ مسئلہ ہمشہ فقہاء و علماء سے رہا ہے کیونکہ وہ دین کہ خلاف ان کی چالوں کو سمجھتے ہیں اور انھیں کامیاب نہیں ہونے دیتے۔

🔹مومن اپنی پہلی غلطی سے عبرت پکڑ لیتا ہے کبھی ایک جگہ سے دوبارہ دھوکہ نہیں کھاتا جیسا کہ حدیث میں بھی ہے «لا يُلْدَغُ المؤمنُ من جُحْرٍ واحد مرتين»

🔹 عادت اللہ اسے کہتے ہیں کہ کوئی کام نظام واسباب کے تحت ہو جیسے آگ کا جلانا، پیاس لگے تو پانی سے بُجھنا وغیرہ۔

🔹اور قدرت اللہ یہ ہے کہ کوئی کام عادت کے خلاف اور اسباب و نظام سے ہٹ کر ہو۔

🔹 اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بندگی و عبادت کے لئے پیدا کیا اور مسلمانوں کو اسلئے کہ خاص اپنی ذات تک عبادت و بندگی نہ کریں بلکہ دوسروں کو بھی بندگی وعبادت پر لانے کی کوشش کریں۔ کما فی القرآن:

كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِؕ-

(اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت ) کے لئے ظاہر کی گئی، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

🔹دعوت تبلیغ کی انتہا (چوٹی) جہاد ہے جب مسلمانوں نے جہاد چھوڑ دیا تو وہ نہ صرف سکڑنا شروع ہوگئے بلکہ ایمان سے بھی محروم ہونا شروع ہوگئے۔ بدقسمتی سے آجکل اکثر مسلمان ایمان سے محروم ہیں کیونکہ انھیں نبی کریم ﷺ کی بتائی ہر بات پر کماحقہ اعتبار نہیں۔

🔹اور کیونکہ جو کام اور مقصد انھیں دیا گیا تھا وہ اس سے ہٹ گئے۔ اور مقصد زندگی بھلا دینا عذاب ہے ایسا انسان پھر اپنی محنتیں اور توانائیاں لایعنی کاموں میں ضائع کرتا ہے۔

🔹انسان کو اپنی ہر بات ہر چیز ہر خیال ہر جذبے میں اللہ تعالیٰ کا دھیان رکھنا چاہئے اگرچہ زبان سے ہر وقت ذکر کرنا ممکن نہیں ہے مگر دل کا دھیان ہر وقت اللہ کی طرف لگا رہے۔ جیسے کہ ہمارے مشائخ نے فرمایا۔
جو دم غافل وہ دم کافر
جو سانس اللہ کے ذکر کے بغیر نکلا گویا کفر (ناشکری) میں نکلا۔

وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى یَاْتِیَكَ الْیَقِیْنُ
اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت میں لگے رہو۔

🔹جب بندہ صدق دل سے توبہ کرتا یے تو اللہ تعالیٰ اسکی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے۔

🔹سچی توبہ سے دل مطمئن ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے بےاطمینانی اور پریشانی ہے پھر

🔹یا تو نفسیاتی ڈپریشن اور بیماری کو روحانی بیماری کے ساتھ ملایا جارہا ہے۔ نفسیاتی بیماری کیلئے جسمانی علاج کی ضرورت ہوتی ہے اور روحانی بیماریوں کیلئے توبہ کی۔ گناہوں پر ندامت اور شرمندگی ایک روحانی عمل ہے۔ بعض دفعہ شدید قسم کے روحانی امراض کے اثرات بھی نفسیاتی امراض کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ جو بے چینی و بے اطمینانی کا سبب بنتے ہیں۔

🔹یا پھر توبہ اپنی تینوں شرائط کے ساتھ نہیں کی گئی۔ صرف ظاہری و زبانی توبہ ہے۔ توبہ کے ساتھ گناہوں سے بھی ہجرت اختیار کرنی پڑے گی انھیں بھی چھوڑنا ہوگا۔ ماحول بدلنا ہوگا تب توبہ کی تکمیل ہوگی جس کا نتیجہ اطمینان قلبی ہے۔

Books

WordPress Video Lightbox