Apple Podcast Google Podcast
Ask us Questions

Surah Yousuf Class 56 - Ramadan 1445 Day 24

03/04/2024
Aayath Name: 63-66
Page: 102-104

Audio

Important Notes

24 رمضان المبارک، تفسیر سورۂ یوسف، اہم نکات:
🔹 آیات نمبر 63 – 66 معارف القرآن جلد نمبر 5 صفحہ 102- 104.

🔹رمضان المبارک میں جہاں ہم نمازوں اور تلاوتوں والے اعمال کر رہے ہیں وہیں ان بابرکت لمحات سے فائدہ اٹھا کر دین سیکھنے کا عمل بھی کریں۔ دین اللہ سے جوڑنے کے لئے آیا اور دعا اللہ سے جڑنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے۔ تو رمضان المبارک میں مسنون دعائیں سیکھنے، سمجھنے اور یاد کرنے کا عمل بھی کرنا چاہیے۔ مشائخِ کرام رمضان اعتکاف کو بھی دین سکھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں، صرف مصلے کی عبادت اور تلاوت کے لئے نہیں۔ اعتکاف میں اجتماعات اسی لئے منعقد کئے جاتے ہیں تاکہ عوام دین سکھیں اور رمضان کے بعد انکی زندگی اس حاصل کردہ علم کہ روشنی میں بدلے۔ ایمان والا تو ہر وقت عمل کی نیت سے علم حاصل کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔

🔹کریم کی تعریف یہ ہے کہ جو بن مانگے دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کریم ہے تو ایسے کریم مالک کے در سے تو چمٹ جانا چاہیے۔ مگر ہمارا حال یہ ہے کہ خود ہمارے پروردگار کو کہنا پڑا
یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِ
اے انسان کس چیز نے تجھے اپنے کریم پرودگار کے بارے میں دھوکے میں ڈالا
کہ تو اس کا در چھوڑ کر اسکے دشمنوں کے در پر جاتا ہے۔ شیطان اور کفار سے سیکھ کے زندگی گزارتا ہے۔

🔹اللہ پاک دنیاوی نعمتیں مومن کافر سب کو بن مانگے دیتے ہیں۔ مگر جنت کیلئے اپنی رضا کی شرط لگادی۔ جیسے یوسفؑ نے پہلی مرتبہ بن مطالبہ کے غلہ بغیر قیمت کے دے دیا لیکن دوسری مرتبہ کے لئے بنیامین کو لانے کی شرط لگادی۔

🔹”ففروا الی الله”، اللہ کی طرف دوڑو تم نے اپنے آپ کو جن گھن چکروں میں پھنسایا ہوا ہے ان سے فرار اختیار کرکے اللہ کی طرف دوڑ لگا دو۔ الله سے رجوع کرکے اس سے مانگو، اللہ کیلئے ہمیں مصیبتوں سے آزاد کرادینا مشکل نہیں مگر ہم اپنے گناہوں کے سبب خود اذیتی (self infliction) کا شکار ہیں۔

🔹کسی بزرگ نے فرمایا: گناہ مفت نہیں ملتے خرچہ کرنا پڑتا ہے، شراب، جوا، سینما وغیرہ۔
اور نیکیاں مفت ملتی ہیں
نماز، روزہ، ذکر، خدمت، دعوت وغیرہ۔ مگر ہم پھر بھی نہیں سمجھتے۔

🔹خالی وعدہ کر دینے سے وعدہ پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا بلکہ جب کوئی اللہ تعالیٰ کو حاضر وناظر جانے تب وعدہ پورا کرسکتا ہے۔

🔹یوسفؑ نے بھائی کو بلوانے کیلئے یہ تدبیر کی کہ فرمایا کہ اگر تم حکومت کے سامنے جھوٹے ثابت ہوۓ تو سزا کے مستحق ہوگے۔ کیونکہ جو شخص حکومت سے جھوٹ بولے وہ سزا کے قابل ہوتا ہے۔

🔹 جھوٹ کے درجات
ہمارے دین میں جھوٹ حرام ہے مگر اسکے پھر مختلف درجات ہیں۔
“افتریٰ علی الله”، اللہ پر جھوٹ باندھنا سب سے بڑا جرم یعنی شرک کرنا۔
پھر جھوٹا خواب بیان کرنا، نبیوں پر جھوٹ باندھنا، والدین پر جھوٹ باندھنا یعنی نسب کی نسبت کسی اور کی طرف کرنا۔جھوٹی گواہی دینا، تجارت میں جھوٹ بولنا وغیرہ۔

🔹جب کوئی جھوٹ بول کر اپنا اعتبار ختم کردیتا ہے تو وہ واپس نہیں آتا سواۓ سچی توبہ کرنے کے۔
حدیث میں ہے کہ مومن جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جھوٹے کا اعتبار نہیں ہوتا اور مومن کا کام تو دعوت الی الله ہے پھر لوگ اسکے بتانے پر غیب کی باتوں پر کیسے یقین کریں گے اگر یہ خود جھوٹا ہو۔ لہذا جھوٹ اور دھوکے کے ساتھ دین کا کام نہیں ہو سکتا۔

🔹مومن کا ہر کام بندگی کیلئے، اس کا طریقہ شریعت کے مطابق، اور نیت آخرت کی جزا اور اللہ کی رضا ہوتی ہے۔

🔹کوئی توبہ کے بعد اسباب کے درجے میں لوگوں کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار کرکے شرمندہ ہو اور یہ کہے کہ میں جھوٹا اور غلط تھا یہ دین سچا ہے تو اللہ تعالیٰ ندامت قبول کرکے اس کی بات میں اثر ڈال دیتے ہیں اور اس کا اعتبار بحال ہو جاتا ہے۔

🔹جب تک عند الله ھدایت کا فیصلہ نہ ہو جاۓ آپ کسی کو ھدایت نہیں دے سکتے۔ ہمارا کام بس صحابہ کرام کے طریقے پر دین کی محنت کرنا اور کوشش کرنا ہے ھدایت دینے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کرنا ہے۔

🔹کسی کو چُھوٹ اور استثنیٰ جب دیا جاتا ہے جب اس سے کوئی معاہدہ یا دوستی کا تعلق ہو۔ ورنہ دشمنوں کو کوئی چھوٹ نہیں ملتی ان کے ساتھ سختی سے معاملہ کیا جاتا ہے۔

🔹 یعقوبؑ نے بھی بیٹوں سے عہد و پیماں اس وجہ سے لیے اور مطلقاً ان پر اعتبار نہیں کیا کہ اس وقت تک انہوں نے توبہ نہیں کی تھی۔ ورنہ توبہ کے بعد تو اعتماد بحال ہو جاتا ہے۔

Books

WordPress Video Lightbox