Apple Podcast Google Podcast
Ask us Questions

Surah Yousuf Class 59 - Ramadan 1445 Day 27

06/04/2024
Aayath Name: 67-69
Page: 107-108

Audio

Important Notes

27 رمضان المبارک، تفسیر سورۂ یوسف، اہم نکات:
🔹 آیات نمبر 67 – 69 معارف القرآن جلد نمبر 5 صفحہ 106- 107

🔹 اللہ تعالیٰ نے خواہش کے لئے حاجت کا لفظ استعمال فرمایا۔ حاجت اسی چیز کی ہوتی ہے جو موجود نہ ہو اور اسکی طرف رغبت محسوس کی جارہی ہو۔ پھر یہ رغبت روکی نہ جائے جو طلب میں بدل جاتی ہے اور کسی چیز کی مسلسل طلب سے یا تو وہ چیز حاصل ہوجاتی ہے، پھر اس کی قربت سے دل میں اسکی محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ یا اگر نہیں بھی حاصل ہوتی تو ذہن پر اسکے سوار رہنے کی وجہ سے تخیلات میں اسکی قربت حاصل ہوجاتی ہے اور پھر بھی محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ تو محبت کے لئے چیز کا جسمانی شکل میں پاس ہونا ضروری نہیں۔

🔹 اسی لئے بہت سے لوگ جن کے پاس دولت نہیں ہوتی ان کے دل میں دنیا کی محبت ویسی ہی ہوتی ہے جیسی اکثر مال و دولت والوں کے دل میں۔ اسی قلبی محبت کی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایسے غریبوں کا حشر امیروں کے ساتھ کیا جائے گا۔ کیونکہ

🔹 حدیث میں ہے کہ المرء مع من احب “کہ آدمی کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اسے محبت ہے” تو یہ بات ایمان والوں خاص کر صحابہ کرام کے لئے بڑی خوشی کا باعث ہے۔

🔹مگر اسی میں ترغیب کے ساتھ ترھیب بھی ہے کہ اگر اس کا دلی تعلق اور محبت کفار اور ان کی تہذیب کہ ساتھ ہے تو پھر ان کے ساتھ حشر کیلئے بھی تیار رہے، یعنی جہنم۔

🔹لیکن اگر ایمان کی حالت میں دنیا سے گیا تو جیسا کہ حکیم الامت رحمہ اللہ نے فرمایا کے ایمان والوں کا دخول جہنم میں تہذیب وتزکیہ کیلئے ہوگا تعذیب (عذاب دینے) کیلئے نہیں ہوگا۔

🔹ہر خواہش پوری کرنا برا نہیں اگر خواہش اچھی ہو تو اس پر اجر بھی ہے۔ اور اگر کسی جائز چیز کی ہے تو پورا کرنا گناہ نہیں بس اسراف و تبذیر نہ ہو۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ “کھا کر شکر کرنے والا روزہ رکھ کر صبر کرنے والے کی طرح ہے۔” یہ فرض روزے کے لئے نہیں۔

🔹اللہ کے گُن گانا اور اس کے حکموں کی خلاف ورزی نہ کرنا شکر ہے

🔹آجکل کے زمانے میں معلومات کی بھر مار ہے۔ مگر ضروری نہیں کہ وہ علمِ صحیح بھی ہو۔

🔹دراصل ہمارا علم ناقص ہے۔ اور جب ہم سب جان لینے کی غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو پھر سمجھتے ہیں کہ بس اب تو عمل کرنا باقی رہ گیا ہے۔

🔹لیکن جب علم ہی غلط ہو تو عمل بھی غلط ہی طریقہ سے ہوتا ہے، کیونکہ عمل کی عمارت علم کی بنیادوں پر کھڑی ہوتی ہے۔

🔹 بہت سے دین داروں میں بھی یا تو علم ہی غلط ہوتا ہے یا پھر انھیں معلوم نہیں ہوتا کہ اس علم پر اپنے حالات کے مطابق عمل کس طرح کرنا ہے۔ کیونکہ احوال بدلنے سے احکام بھی بدل جاتے ہیں۔ ہر حکم ہر کسی کیلئے نہیں ہوتا۔ اس بات کا علم حاصل کرنا پڑتا ہے۔

🔹 اس لئے علم حاصل کرنے کی ناگزیریت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ابھی ہم سب کو بہت زیادہ علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے جو صحیح بھی ہو اور ہمارے اپنے لئے نافع بھی ہو۔ ضروری نہیں کہ یہ حصول علم عالم اور عالمہ کورس ہی کی شکل میں حاصل کیا جائے۔

🔹 ہمارا علم نبیوں کی طرح محفوظ نہیں نبیوں کا علم محفوظ ہے کیونکہ براہ راست حق تعالیٰ سے بذریعہ وحی رابطہ ہوتا ہے۔ اس میں نفس وشیطان کا کوئی دخل نہیں۔ اور پھر ان کا نفس شروع سے ہی مطمئنہ ہوتا ہے اور پھر اس کے درجات میں ترقی ہوتی رہتی ہے۔

🔹 تدبیر اختیار کرنا شریعت میں مشروع اور محمود ہے مگر لوگ اس میں افراط وتفریط کا شکار ہیں۔

🔹یا تو تدبیر کو ہی مؤثر حقیقی سمجھ لیتے ہیں۔ اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ حالانکہ اصل مؤثر حقیقی تو اللہ ہے جو تدبیر کو کارگر کرتا ہے۔

🔹یاپھر ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر بیٹھنے کو توکل سمجھ لیتے ہیں۔

🔹اور بعض عمل تو کرتے ہیں مگر ترتیب پلٹ دیتے ہیں۔ اور شریعت کے خلاف عمل کرتے ہیں شریعت میں “اعقل و توکّل” کی ترتیب ہے کہ پہلے تدبیر اختیار کرو پھر توکل کرو۔

🔹 مگر آج مسلمانوں نے اس ترتیب کو بدل دیا یعنی پہلے شرعیت کے دائرے میں رہ کر عقلمندی کے ساتھ اسباب اختیار کرنے کی بجائے کچھ نہ کیا اور اپنی سُستی کاہلی کو اللہ پر بھروسے کا نام دیا۔ پھر جب اللہ کی کوئی مدد نہ آئی تو اللہ کا در چھوڑ کر غیروں اور دشمنوں کے در سے مانگنا شروع کیا اور انہی کو راضی کرنے والی تدبیریں اختیار کرنا شروع کردیں۔ اور سمجھتے رہے کہ دنیا کے حکمران و کفار ان کی مدد کو آ جائیں گے۔ جیسے ہمارے ملک نے اسباب پر محنت کرکے ایٹم بم اور میزائل بنا لئے لیکن اللہ کے حکموں کو توڑ کے کافروں کو خوش کرنے کے طریقے بھی ساتھ ساتھ جاری رکھے اس لئے اللہ کی مدد سے محروم ہی رہے۔ اسی طرح فلسطین کے معاملے میں بھی ہماری نگاہیں مستقل کافروں کی مدد پر ہی ہیں کہ ہم سوشل میڈیا پر خلاف شرع تصویریں ویڈیوز وائرل کرکے اور کافروں کے طرز پر جلوس نکال کے کافر عوام کے دل اپنی طرف مائل کرلیں گے، پھر انکی حکومتیں ہماری مدد کو آجائیں گی اور اس سے مسائل حل ہو جائیں گے۔

ہم کو ان سے ہے وفا کی امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے!!

افسوس!! اگر ہم نے اللہ سے وفا کی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کیوں نہ اپنا وعدۂ وفیٰ (اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ) پورا فرماتے۔

Books

WordPress Video Lightbox