Apple Podcast Google Podcast
Ask us Questions

Surah Yousuf Class 60 - Ramadan 1445 Day 28

07/04/2024
Aayath Name: 67-69
Page: 108

Audio

Important Notes

28 رمضان المبارک، تفسیر سورۂ یوسف، اہم نکات:
🔹 آیات نمبر 67 – 69 معارف القرآن جلد نمبر 5 صفحہ107- 108

🔹اعتقاد کہتے ہیں ذہن کی سوچ اور فکر کو۔ اسکا تعلق ایمان و عقیدے سے ہے۔

🔹 مثلاً ہم جھوٹ کو برا سمجھتے ہیں مگر کبھی عملی کمزوری سے جھوٹ بول دیتے ہیں۔ تو یہ قابلِ معافی ہے لیکن اگر کوئی جھوٹ کو ہی برا نہ سمجھے جائز سمجھے تو یہ اعتقاد کی غلطی ہے۔

🔹لہذا اعتقاد کبھی غلط نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اعتقاد کی غلطی ایمان سے محرومی کا باعث بن جاتی ہے۔

🔹اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شرک معاف نہیں کرتا اس کے علاوہ سب گناہ معاف کردیتا ہے جس کو چاہے۔ کیونکہ شرک بھی عقیدے کا فساد ہے، یعنی سوچ میں مخلوق کو خالق کا شریک مددگار سمجھنا۔ بت پرستی پوجا پاٹ تو اس سمجھ کا اظہار ہوتا ہے۔
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُۚ-(النساء)

🔹حدیث میں ہے۔ کہ “اگر برائی ہوتے ہوۓ دیکھو تو اس کو ہاتھ سے روکو اگر اسکی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکو اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے برا جانو۔ اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔”

🔹یعنی برے کو برا سمجھنا ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے اور جب برے کی برائی بھی دل میں نہ رہے، اعتقاد میں نہ رہے تو گویا ایمان ختم۔

🔹موجودہ دور میں کسی معاملے میں تدبیر و توکل اختیار کرنے سے پہلے اس کی تحقیق بھی ضروری ہے۔ کہ اس میں کوئی جھوٹ اور دجل تو نہیں خاص کر اگر وہ معاملہ میڈیا اور اسکرین کے ذریعے اچھالا جارہا ہو۔ تو اسے من و عن قبول کرنا خلاف شریعت ہے کما فی القرآن۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا (حجرات)

اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو

🔹جس کی مثال ماضئ قریب میں کرونا وائرس ہے کہ اگرچہ ایک فلو کی قسم کی بیماری کا وائرس تھا مگر میڈیا کے ذریعے اسے پوری دنیا کے اعصاب پر سوار کرکے کتنا خطرناک بنادیا گیا۔ کیونکہ سب میڈیا کی خبروں پر بلا تحقیق یقین کررہے تھے۔

🔹تو کیونکہ موجود دور دجالی فتنے کا دور ہے اس لئے اس میں دجل وفریب کے عنصر کو بھی ضرور مد نظر رکھنا چاہیے۔ اور اسکرین کی نبأ فاسق (جھوٹی خبروں) پر من وعن بغیر تحقیق کے یقین نہیں کرنا چاہیے۔

🔹دجل کا مطلب ہے دھوکا، فریب، جھوٹ، جو ہے وہ نظر نہیں آۓ گا۔ اور جو نہیں ویسا دکھایا جاۓ گا۔

🔹 حدیث میں دجال کے ساتھ المسیح کی صفت کا خصوصیت کے ساتھ ذکر ہے۔ المسیح الدجال یعنی جھوٹا نجات دہندہ

🔹 گویا دجال اپنے آپ کو مسیحا اور نجات دہندہ کے طور پر پیش کرے گا۔ اگر اس نے اپنی برائی پہلے ہی ظاہر کردی تو پھر کون اس سے دھوکا کھاۓ گا۔

🔹اور جب مسلمان اسے اپنا نجات دہندہ سمجھ لیں گے۔ اس مسیحا کی محبت میں گرفتار ہو جائیں گے تو پھر وہ خدائی کا بھی دعویٰ کرے گا تو قبول کرلیں گے۔ کیونکہ حدیث میں ہے کہ ” حبك الشيء يعمي ويصم ” کہ
کسی چیز سے تیری محبت تجھے اندھا بہرہ بنا دیتی ہے۔

🔹تو دجال کو “دجال” ظاہر کرنے والی کسوٹی صرف ایک چیز ہے۔ وہ ہے “سنت”۔ چنانچہ مسلمانوں کو نجات دلانے اور ان کی مسیحائی کرنے کا دجال کا طریقہ خلافِ سنت و شریعت ہوگا، اس کے عقائد فاسد ہونگے۔

🔹تو جن مسلمانوں کے نزدیک دنیاوی مصائب سے نجات دلانے کی اہمیت زیادہ ہوگی بہ نسبت عقائد اور شریعت وسنت اور نبی کریم ﷺ کے طریقوں کے وہ دجال کے فتنے کا آسانی سے شکار ہو جائیں گے۔

اللھم اِنّا نعوذبك من فتنة المسيح الدجال

Books

WordPress Video Lightbox