Tafseer Surah Bani Israel - Part 53
Aayat: 61-65 : Page: 502-504:
Video
Important Notes
🪷 درس کا نام: تفسیر سورت بنی اسرائیل🪷
تاریخ: پیر، ۹ ستمبر، ۲۰۲۴
🔸 اَرَئَیتَکَ میں کَ کی جو ضمیر (pronoun) ہے وہ بات میں وزن ڈالنے کے لیے ہے جس کی وجہ سے اس پورے لفظ کا ہماری زبان میں بامحاورہ مطلب بنے گا بھلا بتلاؤ تو سہی۔ گویا کہ شیطان اللہ تعالیٰ سے اعتراضی طور پر سوال کر رہا ہے کہ بھلا بتائیں تو صحیح اس آدمؑ میں ایسی کیا بات تھی کہ اسکو آپ نے مجھ پر فضیلت دیدی۔ جس کو اپنی عقل پر گھمنڈ ہوتا ہے وہ اپنے بڑوں سے ایسے ہی بات کرتا ہے۔
🔸 اِلَّا قَلِیلَا – شیطان نے کہا کہ میں ان قلیل لوگوں کو گمراہ نہیں کر سکوں گا جو مخلص ہوں گے۔ یہ دلیل ہے اس بات کی کہ شیطان کے پاس وسیع علم تھا۔ وہ جانتا تھا کہ جنکی نیت خالص ہوگی اسکا زور ان پر نہیں چل سکے گا۔
🔸 مخلص وہ ہوتا ہے جس کا دل اس کے نفس پہ غالب آچکا ہوتا ہے۔ یہ کیسے ہوتا ہے، کیونکہ اخلاص سے انسان کے دل کو نفس کو شکست دینے کی طاقت ملتی ہے۔ اس کے برعکس جو مخلص نہیں ہوتے ان کا دل کمزور ہو جاتا ہے، نتیجتاً انکا نفس ان کے دل پہ غالب آ جاتا ہے۔ چنانچہ ان کو شیطان آسانی سے گمراہ کر پاتا ہے۔
🔸 یہاں شیطان نے اتنے اعتماد سے یہ کیسے کہ دیا کہ وہ اکثر انسانوں کو گمراہ کرلے گا۔ کیونکہ اس کو اپنے وسیع علم کی وجہ سے یہ بھی پتا تھا کہ انسان کے نفس کے اجزائے ترکیبی (ingredients) کیا ہیں، یعنی خواہشات نفسانی، اس لئے انہیں آسانی سے گمراہ کیا جا سکتا ہے.
🔸 اللہ تعالیٰ نے شیطان کے جواب میں کہا کہ چلے جاؤ یہاں سے اور جسکو ہوسکے اپنی آواز سے گمراہ کرلو۔ شیطان کہ آواز کو حضرت حکیم الامت اشرف علی تھانوی رح نے فرمایا کہ یہ شیطانی اغواء اور وسوسے ہیں۔
🔸 اغواءِ شیطانی سے مراد ہے کہ انسان مکمل طور پر شیطانی نرغے میں چلا جائے۔ جیسے شیطان بدعتوں کو اس کے سامنے ثواب بنا کے پیش کرے اور وہ اسکو مان لے۔ حتی کہ ثواب کے کام کو گناہ اور گناہ کے کام کو ثواب بنا دے۔ جس نے شیطان کی یہ باتیں مان لیں وہ شیطان کا قیدی بن گیا۔
🔸 وسوسے کی ایک شکل ہے کہ الٹے سیدھے خیالات آتے رہنا۔ ہر وقت منتشر ذہن سے رہنا۔
🔸 نیکوں سے بدگمانی کے خیالات کا آنا وسوسے ہیں لیکن اگر ان وسوسوں کا یقین کر لیا جاۓ تو پھر وہ اغواءِ شیطانی بن جاتے ہیں۔
🔸 یہاں اللہ تعالیٰ شیطان سے فرما رہے ہیں کہ تم ان سے جھوٹے جھوٹے وعدے کر لینا۔ جیسے گناہ کرو گے تو تم کو سزا نہیں ملے گی۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں پھر یاد دلایا ہے کہ شیطان کے وعدے جھوٹے ہوتے ہیں، لیکن افسوس کہ ہم اس کے وعدوں پر بڑی سادگی سے اعتماد کرلیتے ہیں۔
🔸 اسپورٹس اور کمرشل اسپورٹس میں فرق ہے۔ اگر اسپورٹس اپنی فزیکل ایکٹیویٹی، جسمانی ورزش کے لیے کھیل رہے ہیں تو وہ حلال ہیں سوائے یہ کہ اس میں کوئی حرام جزء آجائے تب وہ ناجائز ہوجائیں گے۔ لیکن اگر اسپورٹس بہت بڑے پیمانے پر ہوں اور انکو ٹی وی پر براڈکاسٹ کیا جاۓ جسکا دیکھنے والوں کو کوئی جسمانی ورزش کا فائدہ نہ مل رہا ہو تو وہ کمرشل اسپورٹس بن جائیں گے تو اب وہ جائز نہیں ہیں، کیونکہ یہ وقت کا ضیاں ہے اور شیطان انکے ذریعے اپنے داخلے کے راستے (in roads) بناتا ہے اور آہستہ آہستہ بڑے گناہ انمیں داخل کرتا ہے۔بہت سے دیندار لوگ ان کمرشل اسپورٹس کو سیدھی سادھی حلال تفریح سمجھتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔