Apple Podcast Google Podcast
Ask us Questions

مراقبہ مجلس بیان “طالب علم کے لئے آداب” – کتاب با ادب با نصیب

by Nov 19, 2024Blog, Urdu Writings0 comments

🪷 مراقبہ مجلس بیان “طالب علم کے لئے آداب” – کتاب با ادب با نصیب 🪷

تاریخ: ہفتہ، ١٠ نومبر ٢٠٢٤

طالب علم کے لیے علم حاصل کرنے کی راہ میں تین چیزوں کی بہت اہمیت ہوتی ہے
▪مطالعہ
▪سبق کا ناغہ نہ کرنا
▪تکرار

♦ مطالعہ
مطالعہ کے راستے میں آجکل سیل فون کا استعمال سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ سمارٹ فون کی بہت سی ایپلیکیشنز دلدل کی مانند ہوتی ہیں۔ جیسے LinkedIn پر آپ جوب کے سلسلے میں جاتے ہیں لیکن وہ آپ کے ایسے پرانے پرانے واقف کار دکھانا شروع کر دیتا ہے جن کو پھر کلک کئے بغیر آپ رہ نہیں سکتے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس میں گھنٹوں نکل جاتے ہیں۔ اسی طرح واٹس ایپ کے بلامقصد کئی گروپ جوائن کئے ہوں تو ان پر ہر وقت کوئی نہ کوئی کچھ بھیجتا رہتا ہے جو انتہائی دلچسپی کا باعث ہوتا ہے۔

چنانچہ ہم کم از کم اپنے بچوں کو موبائل سے جتنا بچا سکتے ہیں بچائیں۔ چاہے اس کے لئے انکو انکے سگے رشتہ داروں سے ہی ممکنہ حد تک دور کیوں نہ رکھنا پڑے۔

اور جو بڑے ہورہے ہیں انھیں سمارٹ فون دینے میں جتنی تاخیر کرسکتے ہیں کریں تاکہ وہ شعوری طور پر زیادہ سے زیادہ پختہ ہوجائیں کیونکہ جب ایک دفعہ موبائل ان کے ہاتھ میں آگیا پھر انکے لئے بھی مطالعہ کرنا بہت مشکل ہوجاۓ گا۔

اپنی زندگی میں موبائل کے استعمال کو کم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ خود کو دوسرے فائدہ مند کاموں میں مشغول کریں۔ جیسے اپنے بچوں کو خود پڑھائیں بجاۓ اسکے کے کسی ایسے کے حوالے کردیں جس کو آپ نہیں جانتے اور وہ انکا خیر خواہ نہیں ہوتا۔ یا بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اپنے ہم خیال دوسرے والدین کے ساتھ ملاقاتیں کرتیں، مشورے کریں۔ انکا کیا پڑھانا ہے کیسے پڑھانا ہے یہ سیکھیں۔ پھر آگے دوسروں کو سکھائیں۔

♦ درس میں ناغہ نہ کرنا
ہمارے استاد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ایک درس کے ناغے کی بے برکتی 40 روز تک جاتی ہے۔ اس لئے بغیر کسی بڑے عذر کے ناغہ نہیں کرنا چاہیے۔ کل رات ہی ہمارے کچھ ساتھی کہنے لگے کہ آج دعوت ہے تو بچوں کی چھٹی کرا دیتے ہیں۔ تو اس عاجز نے منع کردیا کہ اس دعوت میں بس ایک کھانا ہی تو ہے۔ اس سے زیادہ تو کوئی پروگرام وغیرہ نہیں یے۔ بچوں کی یہ کلاس ہفتے میں ایک ہی تو ہوتی یے، اسکا بھی ناغہ کردیں گے تو بہت نقصان ہوگا۔

♦ تکرار
اس وقت ہمیں اصلاحی تربیتی علم کی بہت ضرورت ہے۔ دین کی طرف آئے ہوئے نئے دنیادار لوگوں کو ایک مقصد سے پورا عالم کورس کروایا جاتا تھا، کہ یہ ایک تو انکے لئے نظام سے جڑے رہنے کا بہانا ہوتا تھا، دوسرا ان کو علماء کرام کی عظمت کا اندازہ ہوجاتا تھا کہ یہ جاہل لوگ نہیں ہیں بلکہ بہت پڑھے لکھے ہیں۔ کیونکہ ہمارے طبقے میں لوگ علماء کو بالکل بے علم اور بے کار سمجھا کرتے تھے۔ الحمد للہ اب علماء کرام کا علم کھل کر عوام الناس کے سامنے آچکا ہے (حتی کہ اب تو اس ٹوپک کو ماس میڈیا کے اوپر بھی کافی شافی کوورج مل جاتی ہے)۔ اور جڑنے کا کام بھی اب بہت بڑی حد تک ہوچکا ہے۔ چنانچہ اب جڑے ہوؤں کو فتنہ بننے سے بچانے کے لئے انکو اصلاحی اور تربیتی علم دینے کی ضرورت ہے۔

اصلاحی تربیتی دروس میں بھی تکرار یعنی دہرائی کی ضرورت پڑتی ہے ورنہ یہ عاجز حلفیہ کہ سکتا ہے کہ ایک آدھ کے علاوہ دروس میں سب باتیں کسی کو سمجھ میں نہیں آتیں۔ اگر سوال پوچھیں کہ کیا سمجھایا گیا تو کوئی ہوگا جو صحیح جواب دے پائے گا۔

الحمد للہ وہ چند خواتین جو کہ دروس کا تکرار کرتیں ہیں ان میں سے اکثر پہلے سمجھ کے اعتبار سے بالکل صفر تھیں مگر صرف تکرار سے ان کی سمجھ اتنی بڑھ گئی ہے کہ درس کے دوران اس عاجز کے سوالات کے بھی بالکل صحیح جواب دینے لگ گئی ہیں، حتی کہ ایسے نوٹس بنانے لگ گئی ہیں جن سے دیگر کئی لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ تو آجکل تو العلم یزید بالتکرار ہی نہیں بلکہ تکرار کے بغیر بات کا صحیح سمجھنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔

ایک زمانے میں یہ عاجز اپنے حضرت جی دامت برکاتہم کے ہر بیان کو اتنی مرتبہ سنتا تھا کہ جس طرح لوگ فنا فی الشیخ کہتے ہیں اس فقیر کو اسکے استاد صاحب جو حضرت جی کے خلیفہ بھی تھے فنا فی البیان کہنے لگے تھے۔ پندرہ پندرہ دفعہ سے بھی زیادہ کچھ بیانات سنے۔ حتی کہ صرف ایک جملہ سن کر ہی پتا لگ جاتا تھا کہ یہ کون سا والا بیان ہے۔ اور الحمدللہ اس سے بے انتہا فائدہ ہوا اور کئی حکمتیں کھلیں۔

0 Comments

WordPress Video Lightbox