Apple Podcast Google Podcast
Ask us Questions

“مجھے نہیں لگتا کہ۔۔۔۔”، کیا ہمارا معیار بھی یہی تو نہیں ہے؟

by Aug 2, 2023Blog, Urdu Writings0 comments

سید کاشف کریم

٦ ربیع الآخر ١٤٤٣ بمطابق ١١ نومبر ٢٠٢١ (rememberallah.org)

یہ عورت مارچ میں (جو غالبا اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ نہ نیویارک میں نہ لندن میں، اور نہ ہی ممبئی میں) ریکارڈ کیا گیا ایک پاکستانی اداکارہ کا انٹرویو ہے۔ اگر اس عاجز کے بس میں ہوتا تو اس لڑکی کو تمغہ امتیاز دے دیتا، کیونکہ اس نے نادانستگی میں حق اور باطل  میں زبردست امتیاز کر دیا ہے۔ یا کہنا چاہیے کہ اللہ نے اس سے کروادیا یے۔

اگر خدا نخواستہ کسی دن ہماری اولاد نے بھی ہم سے یہ کہہ دیا کہ مجھے نہیں لگتا کہ مرد مرد اور عورت عورت کا پیار ناجائز ہے تو ہم اسکو کیا جواب دیں گے۔ اگر دین کی بنیادی سمجھ سے عاری ہونگے تو شاید یہ کہہ کے آنکھیں بند کرلیں گے کہ  کیا فضول باتیں کر رہے ہو، یہ سمجھتے ہوئے کہ مسئلہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔ یا اگر کچھ دین کی سمجھ رکھتے ہونگے تو یہی کہیں گے نا کہ بیٹا یہ قرآن اور سنت میں تو ناجائز ہے۔ تو اگر آگے سے اس نے یہ کہہ دیا کہ ابو جان (یا امی جان) آپ کون سا قرآن اور سنت کے جائز کو جائز اور ناجائز کو ناجائز سمجھتے ہیں، آپ خود بھی تو اپنی من مرضی ہی کرتے ہیں۔ آپ کی زندگی میں بھی تو جو چیز آپ کو پسندیدہ لگتی ہے اس کو کہہ دیتے ہیں کہ اسے بس مولویوں نے ناجائز کردیا ہے ورنہ 

there is nothing wrong with it.

تو اگر میں نے ایسا کرلیا تو کون سا غلط کیا۔ آپ کا معیار حق بھی تو آپ کی عقل ہی ہے، تو عقل تو میرے پاس بھی ہے۔ اس اعتبار سے مجھے بھی حق پہنچتا ہے کہ ہم جنس پرستی کو جائز سمجھوں اور اس کو کسی کے لئے نقصان کا سبب نہ مانوں۔

یا اگر اس نے ہمارے اوپر بات رکھنے کی بجائے بس اتنا ہی کہہ دیا کہ میں تو ایسا نہیں سمجھتا/سمجھتی کہ قرآن اور سنت اس کے خلاف ہیں، میں نے اپنی تحقیق کرکے دیکھ لیا ہے، اس کو تو ناجائز چند قدامت پسند مولویوں نے کہہ دیا ہے جو بس دین پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقت میں تو یہ جائز ہے۔ کیونکہ (اسکے گمان میں) یہ لوگ کسی کو نقصان تو نہیں پہنچا رہے، کسی کو دھوکا تو نہیں دے رہے، کرپشن تو نہیں کر رہے، قومی دولت کو تو نہیں لوٹ رہے، وغیرہ وغیرہ۔ اور اوپر سے ہماری اولاد نے یہ بھی کہہ دیا کہ میں تو ایسے بہت سے ہم جنس پرستوں کو جانتا/جانتی ہوں جو اخلاق کے بہت اچھے ہیں

 (very sweet personalities)

اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے بھی بہت سے کام کرتے ہیں۔ رفاحی ادارے بھی چلاتے ہیں۔ 

تب ہمارے پاس اس کا کیا جواب ہوگا؟

کیا ایسا نہیں ہے کہ آج ہم نے بھی گناہ اور نیکی کو فقط ان ہی کاموں میں محدود کر دیا ہے۔ موسیقی، بے پردگی بلکہ اچھی خاصی بے حیائی کی فحش باتیں اور حرکتیں نہ صرف ہم خود کرتے ہیں بلکہ ساری دنیا میں وائرل بھی کرتے پھرتے ہیں، اور اس کو برا بھی نہیں سمجھتے۔ عقائد اور فرائض کی درستگی کو ہم نے پس پشت ڈال رکھا ہے اور اپنی طرفداری و حمایت چند لبھا دینے والی باتوں اور نفلی اعمال کی بنیاد پر بانٹتے پھرتے ہیں۔ 

 نبی کریم ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ جو کسی دوسرے کے گناہ کا سبب بنے گا (جس میں موسیقی سننا اور بد نظری بھی شامل ہے) تو اس کے نامہ اعمال میں اس کرنے والے کا گناہ بھی پورا پورا لکھا جائے گا۔

کیا ہم سوشل میڈیا پر موجود لاکھوں  لوگوں کے گناہوں کے بوجھ سے لدا نامہ اعمال موت کے وقت اپنے ساتھ لیجانے کے لئے تیار ہیں؟

کیا ہمارا معیار حق اور باطل بس ہماری اپنی سمجھ و مرضی ہے یا ہم قرآن اور سنت سے اپنی سوچ و عمل کی درستگی کی سند کو بھی کوئی اہمیت دیتے ہیں۔ 

اگر دیتے ہیں تو یہ دلیل ہمیں کون مہیا کرتا ہے، ہمارا اپنا خود ساختہ مطالعہ یا مستند اہل علم؟

کیا ایسے کسی مستند اہل علم پر ہم اپنی اولاد کا اعتماد قائم کرنے کے لئے کوئی محنت کر رہے ہیں، تاکہ انکا معیار حق و باطل آگے جاکر شیطان کے حوالے نہ ہو جائے۔

آئیے اپنی اولاد اور اپنے پروردگار کے سامنے شرمندگی سے پہلے اس طرز عمل پر توبہ کرتے ہوئے اپنے معیار کو تبدیل کرلیں، اور قرآن اور سنت کے حلال اور حرام کو سیکھنے کے کسی مستند سلسلے سے خود کو منسلک کرلیں۔ انشاء اللہ ایسا کرنا ہماری گزشتہ غلطیوں کا کفارہ بن جائے گا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسا دن دیکھنے سے محفوظ فرمائے اور ہمارے اور ہماری نسلوں کے ایمان و اعمال کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔

0 Comments

WordPress Video Lightbox