Apple Podcast Google Podcast
Ask us Questions

جب تم میں حیا ہی نہ رہی تو جو چاہے کرو

by Jan 28, 2024Blog, Urdu Writings0 comments

“اذا لم تستحی فاصنع ماشئت”

جب تم میں حیا ہی نہ رہی تو جو چاہے کرو۔

پچھلے دنوں پاکستان کی خواتین فٹ بال ٹیم نے انٹرنیشنل لیول پر پہلی بار کامیابی حاصل کی تو اس واقعے کی رپورٹنگ کرنے والے ایک رپورٹر نے اس بات پر تنقید کی اور پاکستانی کوچ سے بھی اس کے متعلق استفسار کیا کہ “پاکستانی خواتین پلیئرز نے “نیکرز” کیوں پہنے جبکہ وہ لیگنگز میں بھی میچ کھیل سکتی تھیں۔”

حالانکہ اصل سوال تو یہ بنتا ہے کہ کیا ایک مسلمان عورت کیلئے فٹبال ٹورنامنٹ کھیلنا جائز ہے؟ کجا کہ مردوں کیلئے بھی ستر کھولنا اور بے فائدہ کے ٹورنامنٹ کھیلنا جائز نہیں۔ اسلامی شریعت میں تو کھیل سے متعلق حدود و قواعد بڑے واضح ہیں کہ کیسا کھیل جائز ہے اور جائز کی بھی کیا حدود ہیں۔

بہرحال رپورٹر صاحب کے کوچ صاحب سے اس سوال پر توقع کے عین مطابق بہت سے لوگوں کو کافی غصہ آیا اور انہوں نے اس پر سوشل میڈیا میں خوب کمنٹس کئے لیکن ہمیں ایک بچی کا کمنٹ حقیقت سے سب سے زیادہ قریب لگا۔ اس نے لکھا:

I’m very curious to know if this journalist has ever questioned male sportsmen/celebrities of Pakistan for wearing shorts as that’s un-islamic too or is all this religious moral policing only reserved for the women of Pakistan?

یعنی مجھے اس بات کا تجسس ہوتا ہے کہ کیا اس صحافی نے کبھی پاکستان کے مرد کھلاڑیوں/مشہور شخصیات کے شارٹس پہننے پر سوال اٹھایا، کیونکہ وہ بھی تو اسلام کے خلاف ہے، یا یہ ساری دینی پابندیاں صرف پاکستان کی عورتوں کے لئے ہی مخصوص ہیں۔

چنانچہ جب مداہنت کے راستے کو اپناتے ہوئے اللہ کے حکموں کے خلاف راستے کھولے جاتے ہیں، چاہے مرد کے لئے کھولے جائیں یا عورت کے لئے، تو بہت جلد یہ نوبت بھی آجاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے تو ہمارا مقصد زندگی اپنی بندگی بنایا تھا (وما خلقت الجن و الانس الا ليعبدون) جس بندگی کا معنی محض جائے نماز پر نمازیں پڑھنا نہ تھا بلکہ ہر شعبہ زندگی میں اللہ کے حکموں کی اطاعت کرنا تھا، لیکن ہم نے بلا مقصد کے کھیل کود کو بھی مقصد بنالیا، یعنی کھیل برائے کھیل۔ اور سونے پر سہاگہ یہ کہ ہم ایسے کھیلوں کو سٹیڈیم میں نماز پڑھ کے دینی کارنامہ کا رنگ بھی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر بھلا اللہ نے عورت کا جو خاص مقصد زندگی اور زندگی میں جو کردار بنایا تھا، وہ کس منہ سے ان سے ڈیمانڈ کرتے۔ چنانچہ اگلے مرحلے میں ہم نے اس سے بھی نظریں ہٹائیں اور مختلف حیلوں بہانوں سے عورت کو بھی دوسری سمتوں میں لگایا۔۔۔۔ اور پھر یہ تو ہونا ہی تھا۔ اب وہ نیکر پہنیں یا کچھ نہ پہنیں، اب تو چڑیاں کھیت چگ چکیں، اب اس پر کیوں سوال اٹھاتے ہیں کہ انکا یونیفارم یہ کیوں تھا وہ کیوں نہیں تھا۔ اسلئے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے تو بتا دیا تھا کہ “اذا لم تستحی فاصنع ماشئت” (مردوں کو چاہیے کہ اس حدیث مبارکہ میں حیا کو اللہ سے حیا کے معنی میں پڑھیں، جس سے جب مرد محروم ہو جائیں تو وہ بے غیرتی و دیوسیت کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے)

اکبر الہ آبادی مرحوم نے خوب فرمایا تھا

بے پردہ نظر آئی جو کل چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پر مردوں کی پڑ گیا

دعا ہے کہ الله تعالیٰ پاکستانی مردوں کی عقل پر پڑے ہوئے پردے ہٹا دے اور ان کی سمجھ آجاۓ کہ انکے یہ دوہرے معیار نہ تو اللہ کی نظر میں کوئی وقعت رکھتے ہیں اور نہ ہی عورت ذات کی نگاہ میں انکے لئے کوئی عزت کی رتی باقی چھوڑتے ہیں کہ وہ انکی اطاعت اختیار کریں۔ اور جب ایک دفعہ اللہ سے حیا ختم ہو جاتی ہے تو پھر مرد عورت کا لباس پہنے، اپنی جنس شناختی کارڈ میں عورت لکھوائے، یا عورت کتنا ہی مختصر لباس پہنے، کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

فاعتبروا یا اولی الابصار

نوٹ: کھیل کے احکام جاننے کے لئے دیکھیں معارف القرآن جلد ٧، تفسیر سورة لقمان صفحہ ٢٣.
اور پردہ کیا ہوتا ہے، کیا سر پر باندھا سکارف حجاب ہوتا ہے یا نقاب برقع ہی پردہ ہوتا ہے، اس کے لئے دیکھیں معارف القرآن جلد ٧، تفسیر سورة احزاب میں احکام حجاب صفحہ ٢٠٤، ٢١٣۔

0 Comments

WordPress Video Lightbox