Apple Podcast Google Podcast
Ask us Questions

جنت کی اک بستی کا نام غزہ ہوگا

by Jan 28, 2024Blog, Urdu Writings0 comments

وَ اِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَتۡ ۪ۙ بِاَیِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ

(اور جس بچی کو زندہ قبر میں گاڑ دیا گیا تھا، اس سے پوچھا جائے گا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا)

غزہ

مجھے یقیں ہے
جنت میں بھی
اک بستی کا نام
غزہ ہوگا

ھوں گے اسکے مکیں
سب سے اعلیٰ
سب سے جدا ۔۔۔

خدا نے فقط
فلسطینی بچوں کو
وہاں ںبسا رکھا ہوگا

ہاں جنت میں بھی
اک بستی کا نام
غزہ ہوگا

یہ معصوم اپنے لہو سے
دے رہے ہیں گواہی،
ہم مر رہے تھے، پر
کوئی بولتا نہ تھا

اقوامِ عالم سے لیکر
مسلمانانِ عالم تک ۔۔۔
سب چپ تھے،
ظالم کو کوئی
روکتا نہ تھا

مجھے یقیں ہے جب
حشر بپا ہوگا،
منصف کے سامنے
اک طرف یہ بچے،
دوسری جانب
سارا عالم کھڑا ہوگا

معتبر ہوگی بس یہ گواہی
اور پھر فیصلہ ہوگا!
ہاں ۔۔۔
جنت کی اک بستی
کا نام غزہ ہوگا.

واقعی، تاریخ میں بچوں کو عورتوں کو بوڑھوں کو پہلے بھی کئی مرتبہ ذبح کیا گیا ہے۔ چھاتیاں بھی کاٹی گئیں، ماؤں کی گودوں سے بچوں کو چھین کر ان کے سامنے نیزوں پر اچھالا بھی گیا اور پھر آگ میں ماں اور بچے دونوں کو ذندہ جلا دیا گیا۔ مردوں کے سامنے ان کی عورتوں کے ساتھ اجتماعی زنا کاری بھی کی گئی، لیکن آسمان نے یہ سب کچھ دیکھا یا زمین نے یا کچھ لوگوں کی یادداشتوں میں انکا ذکر رہا۔ ظلم و بربریت کی کئی گنا بڑی داستانیں برما، بوسنیا، ہند و پاک کی تقسیم کے دوران پنجاب، ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد اور صلیبی فوجوں کے ہاتھوں سرزمین شام و فلسطین میں ماضی میں بھی رقم کی گئیں۔ لیکن ۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔ کبھی ایسا نہ ہوا کہ ان مناظر کو پورے عالم کے سامنے اس طرح ڈھٹائی کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ نشر کیا جاتا رہا ہو۔ ان ظالموں نے غزہ پر کھانا پانی اور نہ جانے کیا کیا کچھ بند کردیا، کیا یہ انٹرنیٹ سگنل بھی بند نہیں کرسکتے تھے تاکہ باقی دنیا کے سامنے یہ مناظر ایسے تو نہ پہنچ سکتے۔ ہمارے یہاں تو حفظ ما تقدم کے طور پر ہی ہر ماہ محرم میں بآسانی انٹرنیٹ بند کردیا جاتا ہے۔ آخر غزہ میں کیوں نہیں بند کیا گیا، کوئی مشکل کام تھا؟۔ یقینا یہ کوئی رحمدلی یا بھول نہیں تھی بلکہ ایک ایسا نفسیاتی حربہ تھا جس سے آج کے یہ انسانی نفسیات پر اپنے تعلیمی نظام اور میڈیا کے ذریعے بھرپور قدرت پالینے والے درندے کچھ ایسے مقاصد حاصل کرلینا چاہتے تھے جن کا ہم صحیح معنوں میں ادراک بھی نہیں کر پارہے کہ ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ کیا ہمیں بے حسی کی آخری حد تک پہنچا کے زندہ لاشوں کا مصداق بنایا جا رہا ہے، یا ہمیں بے بسی کی مجسم تصاویر میں ڈھال کے مایوسی اور کفر کی اتاہ گہرائیوں میں اتارا جارہا ہے، یا اس تمام خاک و خون کی تہوں میں سے وہ کوئی ایسا فساد باقی دنیا میں برپا کرنا چاہ رہے ہیں جو ان کی آسمانی کتابوں میں بتائی آخر الزماں کی پیشینگوئیوں کو پورا کرسکے تاکہ انکا دنیا پر کامل حکمرانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے۔

لیکن چاہے جو بھی کھیل وہ کھیلنا چاہ رہے ہوں، یہ بات حتمی ہے کہ مسلمان کے لئے اسباب کے دروازے جب بھی بند ہوتے ہیں تو اس کی توجہ مسبب الاسباب کی طرف اٹھ ہی جاتی ہے، اور اسکو راضی کرنے کا طریقہ اسکو خدا کے کلام اور پیغمبر خدا کی سنت سے سیکھنا پڑ ہی جاتا ہے، یعنی توبہ اور کامل سپردگی۔

لیکن کیا ہوگیا کہ آج ایمان والوں کو اسباب کے ختم ہوجانے کی تمام تر شہادتوں کے باوجود یہ دھوکا مستقل لگا ہوا ہے کہ ابھی بھی کچھ ہمارے ہاتھ میں باقی ہے۔ ہماری صفوں میں موجود اسباب والوں کے بارے میں اتنی خوشگمانی کہ وہ بس سوئے ہوئے شیر ہیں جو کسی وقت بھی بیدار ہوسکتے ہیں اور پھر انہوں نے میدان کی کایا پلٹ دینی ہے۔ ہمیں یہ کیوں نہیں نظر آتا کہ یہ شیر سوئے ہوئے نہیں ہیں بلکہ یہ جاگے ہوئے ہیں اور صدی پر محیط ذہن سازی کے نتیجے میں انکو ایسا بنا دیا گیا ہے کہ یہ بھی بھیڑیوں کے ساتھ مل کے انہی کے کام میں لگے ہوئے ہیں، بس شکل و صورت کہیں کچھ اور کبھی کچھ ہوتی ہے۔ ان سے کسی قسم کی توقع رکھنا صرف مزید وقت اور معصوموں کی زندگی ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ اس وقت تو صرف اور صرف بالکل بنیادوں کی طرف لوٹ کے الله کو منانے کی ہی ضرورت ہے۔ جھوٹ فریب اور دنیا پرستی کے دلدل سے خود کو اور اپنے پاس آنے والوں کو نکالنے ہی کی محنت کی طرف واپس لوٹ جانے کے سوا ہمارے پاس اب کوئی بھی چارہ نہیں ہے۔ ہائے افسوس کہ اس وقت ایمان والوں کو مخصوص یوٹیوب ویڈیو فوٹیجز دیکھ دیکھ کے بھی اسباب کا ایسا دھوکا لگ گیا ہے کہ حالات حاضرہ کے تناظر میں اللہ کی طرف لوٹنا اور اپنے گناہوں پر گڑگڑا کے انفرادی اور اجتماعی معافی مانگنے کی ترغیب دینا ان کے لئے بھی اولڈ فیشنڈ دقیانوسی دین بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ کن کن گناہوں کا بازار آج مسلمان نے خود گرم کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے قادر مطلق کی مدد رکی ہوئی ہے، اس کی طرف دکھانا تو کیا دیکھنا بھی آج ایمان والوں کے لئے شجر ممنوعہ ہوگیا، عوام الناس سے کیا شکوہ۔ کیا بس صیہونی کافر ہی ایک ظالم ہوسکتا ہے، تو پھر آدم و حوا علیھما السلام نے کیوں فرمایا تھا
رَبَّنَا ظَلَمْنَآ أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ ٱلْخَـٰسِرِينَ اور یونس علیہ السلام نے کیوں فرمایا تھا لآ إِلَـٰهَ إِلَّآ أَنتَ سُبْحَـٰنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ ٱلظَّـٰلِمِينَ

اگر اپنا فرض منصبی بہت مشکل نظر آنا شروع ہو جائے تو اسکو چھوڑ کے کسی دوسرے کا کام شروع کر دینا کیا یہ اپنے منصب سے بھی ہاتھ دھونے کی طرف قدم نہیں ہوتا۔ کوا ہنس کی چال چلا اپنی چال بھی بھول گیا۔ اور پھر ہم یہ کیسے بھول جاتے ہیں کہ نہ تو یہ دنیا ہماری دنیا ہے نہ یہ بندے ہمارے بندے ہیں کہ ان سب کو ٹھیک کر دکھانا کوئی ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ تو دنیا بھی اللہ کی دنیا ہے اور یہ بندے بھی اللہ کے بندے ہی ہیں اور وہ خوب جانتا ہے کہ انکو کب اور کس بہانے سے ٹھیک کرنا ہے۔ ہمارا کام تو صرف وہ کرنا ہے جو ہمارے بڑوں نے ہمارے ذمہ لگایا، یعنی دفعِ مضرَّت (عقیدے و اعمال کا فساد) اور جلب منفعت (حسن عبادت و معاملات) پر لوگوں کو مائل کرنا اور اس پر انکی تفصیلی رہنمائی کرنا، جس میں کتابی اصولوں کی روشنی میں اپنے انفسی اور آفاقی حالات کو سمجھانا بھی ناگزیر ہے۔ جب انسانِ کامل اور امامُ الانبیاء ﷺ تک نے جو کچھ کیا وہ اسی ایک ذات کی مدد سے کیا (الحمد للہ وحدہ، نصر عبدہ و ھزم الاحزاب وحدہ)، تو ہم کمزوروں کی مدد کے لئے تو وہ آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے اور اپنے امر پر ویسے ہی غالب ہے جیسے کل تھا۔
وَٱللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰٓ أَمْرِهِۦ
وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

اللہ تعالی ہماری طرف سے ہمارے بڑوں کو بہترین اجر عطا فرمائے جنہوں نے ہمیں وہ پورا پورا پہنچایا جو انہوں نے اپنے بڑوں سے پایا اور پوری امت کا حامی و ناصر ہو۔

از فقیر
جمعرات، ٢٥ ربیع الآخر ١٤٤٥

0 Comments

WordPress Video Lightbox