ہماری خواتین کی تفسیر کلاسس میں انڈیا میں مسلمانوں کی بچیوں کے ہندو لڑکوں کے ساتھ شادی کرلینے یا بس ایسے ہی بھاگ جانے کے موضوع پر اس عاجز نے کچھ بات کی تو پاکستان سے ایک اصلاحی تعلق والی عالمہ صاحبہ نے یہ مراسلات بھیجے۔ عبرت پکڑنے اور اپنے گھر میں ضروری اقدامات اختیار کرنے، نیز اپنے جاننے والوں میں اس بات کو چلانے کی تاکید کے ساتھ یہ عاجز آپ کے ساتھ شئیر کر رہا ہے۔ غور سے پڑھیں اور کوئی اشکال یا سوال ذہن میں آئے تو ضرور پوچھیں۔
جی حضرت،حالات بہت خراب ہیں انڈیا میں تو پھر غیر مسلموں کے ساتھ ہیں تو یہ سنگین نتائج برآمد ہونے ہی ہیں
مگر ہمارا دل تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حالات دیکھ کر اس سے زیادہ کڑھتا ہے۔جہاں پر غیر مسلم چند فیصد بھی نہیں مگر یونیورسٹیز کی مخلوط دنیاوی تعلیم کے نتائج انتہائی بھیانک سامنے آرہے ہیں۔ کیونکہ ان جگہوں پر فیمنسٹ تحریکیں لڑکیوں کی خوب برین واشنگ کر رہی ہیں۔ عجیب عجیب قسم کی ورک شاپ کروائی جاتی ہیں اور فیلڈ ورک بھی، ایک قریبی عزیز کی بیٹی نے بتایا کے یونیورسٹی کی طرف سے “ٹرانس جینڈر” پر ورک شاپ کے بعد انھیں فیلڈ ورک اور سوشل ورک کے طور پر خواجہ سراؤں کے علاقے میں لے جاکر ان سے ملاقات کروائی گئی اور ہم نے ان کے حالات اور مسائل کا مشاہدہ کیا ( پرائیوٹ یونیورسٹیز کے حالات زیادہ برے ہیں جو اب ہر پوش علاقے میں پائی جاتی ہیں)
اور اس سے بھی زیادہ افسوس ان والدین پر ہوتا ہے جو خود تو نام نہاد دیندار ہیں مگر دنیاوی تعلیم کو ہرمسئلے کا حل سمجھتے ہیں ۔اور چند انچ کے اسکارف کو حجاب کا نام دیتے ہیں۔ (جس میں چہرہ کھلا ہوتا ہے ۔اور اس کے نیچے اونچی قمیض اور ٹائٹس پہنا کر)اور اس” باحجاب” لڑکی کو کالج بھیج دیتے ہیں۔جو پارٹ ٹائم میں مخلوط کوچنگ سینٹر میں پڑھاتی ہے اور اپنی تعلیم اور فیشن کے اخراجات خود اٹھاتی ہےاور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔
میں خود ذاتی طور پر ایسی بچیوں کو جانتی ہوں جو دین دارگھرانوں کی تھیں مگر ان کے والدین نے انھیں دینی تعلیم نہ دلوائی اور ان کے اعلی تعلیم دلوانے کے شوق نے ان بچیوں کو برباد کر دیا اب ماڈرن ہونا تو ایک الگ قصہ ہے سرے سے ان بچیوں کے عقائد ہی ملحدانہ ہو گئے ہیں علماء کو تضحیک کا نشانہ بناتی ہیں۔ مشرقی روایات سے نالاں ہیں۔ اور اب ان کے والدین کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ پانی سر سے گزر چکا ہے۔(ان کا کہنا پہلے یہ ہوتا تھا کے ہمیں اپنی تربیت پر اعتماد ہے ہمارا ماحول دینی ہے ہماری بچیاں نہیں بگڑیں گی یونیورسٹی جاکر)۔
اب تو کراچی میں رسموں کے نام بھی بدل گئے ہیں اور لوگ بےبی شاور اور برائیڈل شاور کی تقریبات منانا زیادہ فخر کا باعث سمجھتے ہیں۔
مجھے تو اس تمام معاملے میں ان بچیوں کے والدین ہی زیادہ قصور وار لگتے ہیں جو جانتے بوجھتے دنیا کی محبت میں اپنی اولاد کو آگ میں جھونک رہےہیں۔
الی الله مشتکیٰ۔