Apple Podcast Google Podcast
Ask us Questions

ہم دینداروں کے صبر کا عجیب معاملہ

by Jul 31, 2023Blog, Urdu Writings0 comments

بدقسمتی سے آجکل یہ بہت دیکھنے میں آ رہا ہے کہ صبر کی تلقین اس لئے کی جا رہی ہوتی ہے کہ دوسروں کی غلطیوں کو تو دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن اپنی غلطی کو تسلیم ہی نہیں کر رہے ہوتے۔ تو صبر جیسے عظیم مقام کی تلقین بھی ایک گناہ ہی کا سبب بن رہی ہوتی ہے۔ چنانچہ جس کو صبر کی تلقین کی جارہی ہوتی ہے اس کا نفس اور پھول رہا ہوتا ہے کہ واقعی میں مظلوم تھا/تھی اور دوسرا ظالم تھا/تھی۔ والدین یہ معاملہ خصوصا اپنی اولاد کے ساتھ بچپن سے روا رکھتے ہیں، چنانچہ یہ بچے بڑے ہوکے بھی ہر معاملہ میں جو انکے مزاج کے خلاف ہوتا ہے ایسے ہی سوچ رہے ہوتے ہیں کہ وہ ہی ظالم ہے اور میں یقینا مظلوم ہوں اور مجھے میرے اچھے والدین نے اور دین نے یہی سکھایا ہے کہ مجھے اس کے ظلم پر صبر کرنا ہے۔ شومئی قسمت کہ یہ سوچ دیندار گھرانوں میں ہوتی ہے اور صبر کے فائدہ کی بجائے نقصان کا موجب بن رہی ہوتی ہے۔کیونکہ دنیادار تو جس کو ظالم سمجھتے ہیں اس کو مزا چکھانے کی فکر کرتے ہیں، اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی پلاننگ کرتے ہیں،لیکن دیندار بیچارے اس

victim mentality

کی وجہ سے دوسرے کو ظالم سمجھ سمجھ کے اپنے زعم میں صبر کر رہے ہوتے ہیں اور قرآنی اعلان انما یوفی الصابرون اجرھم بغیر حساب کا اطلاق اپنے اوپر کرکے اپنے لئے بلا حساب اجر کے خیالی پلاؤ بھی ساتھ ساتھ پکا رہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت حال کچھ اور ہی ہوتی ہے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اور ہماری اولادیںدنیا اور آخرت میں اچھی زندگی گزاریں تو ہمیں انسانی رشتوں کے معاملے میںدوسروں کی حقیقی یا فرضی دونوں قسم کی خامیوں سے نظر کو ہٹانا ہوگا اور اپنی خامیوں کی اصلاح کی طرف حقیقتاً متوجہ ہونا ہوگا، صرف زبانی دعووں سے کام نہیں چلے گا۔ ہم علم دین اس لئے نہیں سیکھ رہے کہ صحیح غلط کی تعریف سیکھ سیکھ کے دوسروں کو ظالم قرار دینے کے لئے ثبوت اکھٹے کریں۔ دید قصور کو ہمارے مشائخ نے یوں ہی نہیں اصلاح کا پہلا زینہ قرار دیا، لیکن یہ دید اس وقت تک حاصل ہو ہی نہیں سکتی جب تک توجہ دوسرے کی غلطیوں سے نہیں ہٹے۔

اللہ تعالیٰ بات کی سمجھ عطا فرمائے اور عافیت کے ساتھ ہماری اس سوچ کی اصلاح فرما دے تاکہ ہم بھی اسکے دین کے کسی کام کے بن جائیں۔

0 Comments

WordPress Video Lightbox