Apple Podcast Google Podcast
Ask us Questions

Universities are secular indoctrination camps

by Jan 28, 2024Blog, Urdu Writings0 comments

Universities are secular indoctrination camps 

گزشتہ رات ہمارے ایک نوجوان عالم اور صاحب نسبت دوست نے اوپر والی عبارت لکھی تو اس عاجز کے دل میں ایک مضمون بندھتا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے لکھنے کا موقع بھی عطا فرمادیا۔ چنانچہ آپ کے بھی پیش خدمت ہے۔ امید ہے آپ اسے دل کی آنکھوں سے پڑھیں گے۔ اپنی مفید رائے سے مطلع فرمائیں اور کوئی سوال ہو تو بلا تکلف پوچھیں۔

Universities are secular indoctrination camps

(یعنی یونیورسٹیاں مادہ پرستی میں ڈھالنے کے عقوبت خانے ہیں)

اس پر اس عاجز نے لکھا۔۔۔

Masha’Allah quite an opening 🙂 This faqeer would like to add “and schools and colleges too.”

یہ فقیر کچھ عرصے سے اس بات کو سمجھانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے

(With full realization that it’s quite an uphill battle)

(اس ردعمل کی مکمل توقع کے ساتھ ہی کہ یہ ایک جوئے شیر لانے کے مترادف کام ہے( کہ یہ جو ہم نے سمجھا ہوا ہے کہ اس تعلیمی نظام میں آگے جاکے یعنی خوب اچھے سے پڑھ کے ہماری نسلیں ملک و دین کی زیادہ احسن خدمت کرسکتی ہیں، حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

(Though exceptions are always there)

(گو کہ استثنائی صورتیں ہر جگہ نکل آتی  ہیں)

 مزید یہ کہ اگر ہم مردوں اور عورتوں کے لئے الگ الگ اسکول کالج اور یونیورسٹیاں بنادیں اور پھر کتابوں میں سے ختم نبوت کے خلاف ہرزہ سرائیاں، سور اور عورتوں کی تصویریں وغیرہ نکال دیں اور ڈانس اور میوزک کا راستہ اداروں میں  روک دیں تو پھر یہ تعلیمی ادارے بالکلیہ شریعہ کمپلائنٹ ہوجاتے ہیں اور پھر ان سے ہم بڑی تعداد میں اصلی مسلمان پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس بات کو دنیا داروں کو تو کیا دین داروں اور علم والوں کو سمجھانا آسان کام نہیں ہے۔ چنانچہ اس عاجز نے اس مقصد کے لئے جو اصول اپنایا ہے وہ ہے:

الاشیاء تعرف بأضدادھا

(یعنی بسا اوقات کچھ چیزیں جو براہِ راست آسانی سے نہیں سمجھ میں آتیں وہ  اپنی ضد سے بآسانی سمجھ میں آجاتی ہیں۔ جیسے دن کیا ہوتا ہے، یہ اپنی ضد رات سے سمجھ میں آجاتا ہے)

اس کا پہلا جزء تو یہ ہے کہ علم و ادب کا اصل اور سب سے موثر طریقہء ترسیل تو اہل علم و عمل کی صحبت ہوتا ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صحبت مخصوصہ میں آپ صرف چند نفوس ہی تیار کرسکتے ہیں کیونکہ انسان چاہے جو بھی ہو اسکا دن، زندگی اور قوتیں محدود ہوتی ہیں۔ لامحدود تو اللہ کی ذات ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ تیار کرنے کے لئے مدرسہ، اسکول کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ مدرسہ اور اسکول صحبتی تربیت یافتہ لوگوں نے بنانے اور چلانے ہوتے ہیں اور اس میں وہ ہلکی پھلکی صحبت کو استعمال کر کے ایک کثیر تعداد میں کھیپ تیار کرتے ہیں جو آگے معاشرے کا تفصیلی نظم و نسق سنبھال سکے۔ جب ہی کسی انگریز نے اسکولوں کو کہا 

Weapons of Mass Instruction

کیونکہ یہاں سے

تیار ہوتے ہیں۔ masses

اب ہم سیرت طیبہ کو دیکھیں تو نبی کریم ﷺ نے چیدہ چیدہ کامل افراد خصوصی صحبت میں تیار فرمائے جو سابقون اوّلون کہلائے۔ پھر جب ریاست مل گئی تو مدرسہ بنایا جس میں ایک وقت میں 70 سے لے کر 400 تک طلباء بیک وقت ہوا کرتے تھے۔ اور یہ پاس آؤٹ ہوتے رہتے تھے۔ یہ سب اصحاب صفہ تھے لیکن عشرہ مبشرہ خلفائے راشدین وغیرہ  ان میں سے نہیں تھے۔ وہ خاندانوں والے، گھروں والے لوگ تھے، وہ پہلے تیار ہو چکے تھے۔ ہاں صفہ میں آتے جاتے رہتے تھے۔ 

اب آتے ہیں اوپر والے اصول پر۔ کیا کوئی ہوش و ہواس رکھنے والا اہلسنت و الجماعت سے متعلق مسلمان تصور کرسکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کا یہ بنایا ہوا مدرسہ بلکہ تعلیمی نظام ایسے اصحاب پیدا کرے جو شاگرد تو نبی ﷺ اور سابقون اوّلون کے ہوں، الفاظ تو قرآن اور حدیث کے پڑھے ہوئے ہوں لیکن دل انکے غیر اللہ کی محبت سے لبریز ہوں۔  ان کی وفاداریاں اللہ اور اسکے رسول کی بجائے اللہ اور اسکے رسول کے دشمنوں کے ساتھ ہوں۔ نہیں نا!! آخر کیوں نہیں؟ اس لئے کہ جو بھی ایک تعلیمی و تربیتی نظام بناتا ہے اسکا تو اولین مقصد یہ ہوتا ہے کہ کثیر تعداد میں ایسے لوگ پیدا کرے جو اسکے وفادار ہوں، اس کے نظریہ حیات سے متفق یوں اور اس کے اشاروں پر نظام معاشرت و سلطنت کو چلانے والے ہوں۔ جن پر وہ آگے چل کر اعتماد کرسکے کیونکہ انہوں نے تو اس کے نمائندے بننا ہے اور کام کو آگے بڑھانا ہے۔ 

اگر ہم یہاں تک متفق ہیں تو اب مدرسہ صفہ کی ضد، آج کے مروجہ تعلیمی نظام کی طرف آتے ہیں۔ یہ تعلیمی نظام کس کا بنایا ہوا یے؟ کیا ان سے ہماری سو کالڈ آزادی کے بعد ہم نے اس میں سوائے کچھ

cosmetic changes 

کے مزید کوئی ردوبدل کیا ہے۔ (پاکستان کے ابتدائی دور میں حضرت مفتی محمد شفیع اور مولانا یوسف بنوری رحمهم الله جیسے اکابرین کی سرکردگی میں حکومت وقت نے جو ایک بہترین تعلیمی پالیسی خود مرتب کروائی اس کی نفاذ کے وقت کیوں کایا پلٹ دی گئی – دیکھئے مفتی تقی عثمانی کی کتاب “ہمارا تعلیمی نظام”). بچوں کو شلوار قمیض پہنا کر اور کچھ زیادہ دینی اصطلاحات پڑھا کر بھی کیا ہم ان کو اس نظام کے سحر سے آزاد کر پارہے ہیں۔ وہ چند بچے تو شاید محبت دنیا کے اثر سے کچھ محفوظ ہو رہے ہوں جن کے والدین محبت الٰہی اور کفر و کافری کی نفرت کو اپنے بچوں میں منتقل کرنے پر گھروں میں صحبتی انداز میں محنت کر رہے ہیں۔ لیکن جن پر یہ صحبتی محنت نہیں ہو رہی (کیونکہ ان کے والدین خود اتنے باشعور نہیں ہیں یا ان کے پاس شب و روز کی ضروری یا بنائی ہوئی مصروفیات میں سے اپنی اولاد کے لئے وقت ہی نہیں نکل پاتا) وہ تو بہرحال محبت دنیا، بلکہ عظمت دنیا کا شکار ہو ہی جاتے ہیں جس مقصد کی اشاعت کے لئے اس نظام کے بنانے والوں نے اسکو بنایا اور اس کو ہر صورت برقرار رکھنے کا تہیا کئے ہوئے ہیں۔ حتی کہ اگر اس کی بقا کے لئے انکو لڑکے لڑکیوں کے لئے الگ بلڈنگ کی اجازت دینی پڑ جائے تو اس کے لئے بھی تیار ہیں۔ اسلامیات کی کتاب کو پاس ہونے کے لئے سب سے زیادہ آسان کتاب سے بڑھا کر ایک معلومات سے بھرپور موٹی تازی کتاب بنانا پڑ جائے تو اس کے لئے بھی تیار ہیں۔ کیونکہ انکا مقصد صرف یہ ہے کہ بس تم مسلمانوں رہو اسی نظام کے تحت جو ہمارا بنایا ہوا ہے۔ ہم تمہاری لڑکیوں کو برقع پہنا کے بھی اپنی ہی یونیورسٹیوں میں پڑھنے بلائیں گے (حجاب بالبیت جو اصل پردہ تھا وہ بھی کرنا چاہتی ہونگی تو آن لائن آپشنز مہیا کریں گے). ہمیں پتا ہے کہ تمہیں کیسے قابو کرکے رکھنا ہے۔  تاکہ تمہارے جسم بے شک تمہاری مرضی کے بن جائیں لیکن تمہارے دل و دماغ ہماری ہی مٹھی میں رہیں۔

0 Comments

WordPress Video Lightbox